اسلام آباد کچہری میں پیر کو وکیل عثمان خان یوسفزئی اُس وقت عدالت میں موجود تھے جب اُن کے کوٹ سے اچانک دھواں اٹھنے لگا۔
خطرہ بھانپتے ہوئے انھوں نے فوراً کوٹ اُتار پھینکا اور کچھ ہی دیر میں کوٹ میں موجود اُن کا موبائل مکمل طور پر جل چکا تھا۔
عدالت کے باہر ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں وکیل عثمان خان بظاہر موبائل کی بیٹری پھٹنے کے اس واقعے کی وجہ رات بھر فون چارجنگ پر لگانے کو بتاتے ہیں۔
وہ اس ویڈیو میں کہتے ہیں کہ ’میں رات کو سونے سے پہلے اپنا موبائل چارجنگ پر لگا دیتا ہوں اور پھر صبح اتارتا ہوں، شاید اس وجہ سے یہ ہوا۔‘
عثمان کے پاس موبائل فون کمپنی سام سنگ کا فون تھا اور اِن فونز میں ماضی میں بھی بیٹری پھٹنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
اس ویڈیو کے اختتام پر وہ سام سنگ کے جس ماڈل کا ذکر کرتے ہیں اس میں لیتھیئم پولیمر بیٹری استعمال ہوتی ہے جو اس سے قبل ان فونز میں استعمال ہونے والی متنازع لتھیئم آئن بیٹری سے قدرے زیادہ محفوظ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی موبائل کمپنیوں نے جلدی چارج ہونے والی لتھیئم آئن بیٹریوں کی جگہ زیادہ محفوظ لتھیئم پولیمر بیٹریوں کا استعمال کرنا شروع کیا تھا۔
اس سے قبل سنہ 2020 میں دی اخبار دی ڈیلی میل سے بات کرتے ہوئے کیلی فورنیا کے ایک رہائشی بھی سام سنگ کے اسی ماڈل کے حوالے سے یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان کے فون کی بیٹری اچانک پھٹ گئی تھی اور ان کا فون مکمل طور پر جھلس گیا تھا۔
اسلام آباد کے وکیل کے موبائل پھٹنے سے متعلق ویڈیو سامنے آنے کے بعد بہت سے سوشل میڈیا صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا پوری رات موبائل کو چارجنگ کے لیے چھوڑ دینا واقعی خطرناک عمل ہے؟
اس رپورٹ میں مانسہرہ ٹا ئمز نے اسی نوعیت کے چند سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔