پاکستان میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں زیر گردش پانچ ہزار مالیت کے نوٹوں کا معاملہ اس وقت زیر بحث آیا، جب کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے پانج ہزار کا ایک جعلی نوٹ اجلاس میں موجود سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر کے سامنے رکھا گیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر بھی اس جعلی نوٹ کو نہ پہچان سکے۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین کمیٹی نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو صارفین سے پانچ ہزار کا جعلی نوٹ لے کر اصلی نوٹ دینے کی تجویز دی گئی تاہم ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کا اس موقع پر کہنا تھا کہ جعلی کرنسی پاکستان نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے اور ’ڈالر کی جعلی کرنسی بھی چھپ رہی ہے، ایسا کوئی نظام موجود نہیں جس کے باعث جعلی کرنسی کو چھاپنے سے روکا جا سکے۔‘
وہ پاکستانی صارفین جنھیں دھوکہ دہی سے جعلی نوٹ تھمائے گئے ہیں انھیں جعلی کے بدلے اصلی نوٹ دینے کی تجویز پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ اگر جعلی کرنسی کے بدلے اصلی کرنسی دی جانے لگی تو یہ کاروبار بن جائے گا۔
ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک عنایت حسین کا کہنا تھا کہ خزانہ کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں جعلی کرنسی کی سرکولیشن اور جعلی نوٹ چھاپنے پر بریفنگ دیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کی کرنسی میں پانچ ہزار کا نوٹ سب سے بڑی مالیت کا نوٹ ہے۔ پاکستان میں جعلی کرنسی کے نوٹوں کی شکایات وقتاً فوقتاً ابھرتی رہتی ہیں تاہم پانچ ہزار کے نوٹ کے جعلی ہونے اور اس سے ایک عام فرد کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں کرنسی نوٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے، اس کے لیے سٹیٹ بینک نے مختلف گائیڈ لائنز جاری کر رکھی ہیں۔
پانچ ہزار والے نوٹ کی پہچان کیسے کی جا سکتی ہے ؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پانچ ہزار کے کرنسی نوٹ کی سب سے منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس کی پرنٹنگ اس منفرد کاغذ پر ہوئی ہے، جسے چھونے سے ہی اس کے منفرد ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
نوٹ کے سامنے کی سائیڈ پر دائیں جانب بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کا واٹر مارک جبکہ اس کے نیچے نوٹ کی مالیت یعنی پانچ ہزار کا واٹر مارک بھی نمایاں ہے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق نوٹ کے اندر حفاظتی دھاگے کو آر پار دیکھنے سے یہ عمودی پٹی کی صورت میں نظر آتا ہے جس پر نوٹ کی مالیت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
نوٹ پر پاکستان کا جھنڈا بھی اس کی ایک منفرد خصوصیت ہے جو مختلف زاویوں سے دیکھنے سے یہ رنگ بدلتا نظر آئے گا۔
اسی طرح بائیں جانب ابھرے نشانات ہیں جن کو چھونے سے بینائی سے محروم افراد کو بھی نوٹ کی مالیت جاننے میں مدد ملتی ہے۔
اسی طرح نوٹ کے بائیں جانب موجود بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی تصویر کے ساتھ بھی 5000 کا ہندسہ پوشیدہ ہے جو نوٹ کو مختلف زاویوں سے دیکھنے پر نمایاں ہوتا ہے۔
اسی طرح دائیں بائیں کناروں پر ابھرتی ہوئی لکیریں موجود ہیں جبکہ پچھلی سطح بالکل ہموار ہے، جو اصلی نوٹ کی پہچان میں مدد دیتے ہیں۔
کیا عام شخص جعلی نوٹ کو پہچان سکتا ہے ؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پانچ ہزار کے نوٹ کے اصلی ہونے کی گائیڈ لائنز تو جاری کی گئی ہیں تاہم کیا ایک عام آدمی اس سے نوٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کے بارے میں پتا چلا سکتا ہے؟
اس بارے میں شعبہ بینکاری کے امور کے ماہر راشد مسعود عالم کے مطابق یہ بڑا مشکل ہے کہ ایک عام آدمی سٹیٹ بینک کی گائیڈ لائنز کے مطابق نوٹ کے اصلی یا نقلی ہونے کے بارے میں جان سکے۔
انھوں نے کہا کہ عام آدمی ان گائیڈ لائنز کی امید پر اپنے آپ کو جعل سازی سے محفوظ رکھنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینکوں میں کام کرنے والے کیشئر اور روپے کی لین دین کرنے والے کاروباری حضرات اس میں ماہر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی اس سلسلے میں خاص تربیت ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ عام آدمی کو اگر یہ دیکھنا ہے کہ کرنسی نوٹ جعلی ہے یا اصلی تو اسے بہت غور سے دیکھنا ہو گا اور یہ مشکل ہوتا ہے۔
راشد مسعود عالم نے بتایا کہ اب تو بینکوں میں بھی نوٹ گننے کی مشینیں ہوتی ہیں جو نوٹ تو گن سکتی ہیں لیکن نوٹ کے اصلی اور جعلی ہونے کا پتا نہیں چلا سکتیں۔
انھوں نے کہا کہ ویسے تو ہر بینک میں نوٹس بورڈ پر سٹیٹ بینک کی جانب سے ایسی ہدایات لکھی ہوتی ہیں کہ ایک عام آدمی اس بنیاد پر نوٹ کو پرکھے تاہم اُن کو پڑھنے کا تردد کوئی نہیں کرتا۔
انھوں نے کہا کہ دوسری طرف اگر بینکوں میں کچھ جعلی نوٹ آ بھی جائیں تو بینک پر اس کا زیادہ اثر نہیں پڑتا کیونکہ بینکوں میں کام کا جو حجم ہے اس میں یہ زیادہ معنی نہیں رکھتا۔
’اصلی نقصان ایک عام آدمی کا ہی ہوتا ہے۔ اگر اسے پانچ ہزار کا جعلی نوٹ مل جائے تو اس کا اچھا خاصا نقصان ہوتا ہے۔‘