جسم کو لاحق ہونے والی بیماریوں کی جانکاری اور علاج کے لیے ہم اکثر اپنا خون کے ٹیسٹ کرواتے ہیں لیکن کیا کوئی ایسا ٹیسٹ بھی ہے جس سے پتہ چل سکے کہ جسم کا کون سا عضو دیگر اعضا کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے؟
سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ اب یہ جانا جا سکتا ہے کہ جسم کے کس عضو کو جلد خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے انسانی جسم کے 11 اہم اعضا کے متعلق تجربہ کیا ہے جن میں دل، دماغ اور پھیپھڑے بھی شامل ہیں۔
ٹیم نے جن لوگوں پر تحقیق کی ان میں سے زیادہ تر ادھیڑ عمر یعنی بڑی عمر کے لوگ تھے۔
اس تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ 50 سال سے زائد عمر کے ہر پانچ افراد میں کم از کم ایک عضو ایسا ہوتا ہے جو اپنی عمر سے زیادہ تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہوتا ہے۔
ساتھ ہی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 100 افراد میں کم از کم ایک یا دو افراد ایسے ہو سکتے ہیں جن کے جسم کے ایک سے زیادہ اعضا طبی عمر سے زیادہ بوڑھے ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ اس ٹیسٹ کو کرنے کا خیال خوفناک ہو سکتا ہے لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر ایک ایسا موقع ہے جس کی جانکاری سے طرز زندگی کو بدلا جا سکتا ہے اور صحت مند زندگی کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
جسم کے اعضا کی عمر میں فرق
محققین نے معروف سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں لکھے گئے مضمون میں کہا ہے کہ میں ’یہ جان کر کے ہمارے جسم میں کون سا عضو تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے ہم مستقبل میں صحت کو درپیش خدشات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔‘
مثال کے طور پر اگر آپ کے جسم میں موجود دل آپ کے باقی جسمانی اعضا کی نسبت تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوں گے کہ مستقبل میں آپ کو دل کا دورہ یا اس سے متعلقہ بیماری ہو۔ اسی طرح باقی اعضا کی نسبت تیزی سے بڑھاپے کی جانب مائل دماغ مستقبل میں ڈیمنشیا کے خطرے کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اگر جسم کا کوئی حصہ تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے تو اگلے 15 سالوں میں بعض بیماریوں اور موت کا خطرہ زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
یہ جانچ کیسے ہوئی؟
ہمارا جسم مختلف خلیوں کے گروپوں سے بنا ہے۔ جسم کی نشوونما اور بہتر کام کے لیے خلیے ضروری ہیں۔ یہ خلیے پروٹین سے بنے ہیں۔
درحقیقت کسی بھی عضو کی عمر معلوم کرنے کے لیے جب خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو جسم میں موجود ہزاروں پروٹینز کی سطح کی پیمائش کی جاتی ہے جس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ جسم کے کون سے حصے کی عمر کس رفتار سے بڑھ رہی ہے۔
محققین نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے متعدد خون کے ٹیسٹ کے نتائج اور مریضوں کے دیگر ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا پتا چلایا ہے۔
محققین میں سے ایک ڈاکٹر ٹونی وائس کورے نے بی بی سی کے ڈیجیٹل ہیلتھ ایڈیٹر مشیل رابرٹس کو اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ‘جب ہم نے بڑی تعداد میں لوگوں کے جسمانی اعضا اور ان کی حیاتیاتی عمر کا موازنہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ 50 سال سے زیادہ عمر کے 18.4 فیصد لوگ میں کم از کم ایک عضو ایسا تھا جو ان کی طبی عمر سے بڑا تھا اور جسم کے باقی اعضا کے مقابلے میں تیزی سے بوڑھا ہو رہا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں: ’ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ اگلے 15 سالوں میں ان لوگوں کے جسم کے اس حصے میں بیماری کا خطرہ زیادہ ہو گا۔‘
یونیورسٹی اب اس تحقیقات کے نتائج کو پیٹنٹ کر رہی ہے یعنی اس کے جملہ حقوق محفوظ کروا رہی ہے اور اس کے لیے کاغذی کارروائی کی جا رہی ہے تاکہ مستقبل میں اسے استعمال یا فروخت کیا جا سکے۔
کیا ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے؟
تاہم، یہ جاننے کے لیے کہ یہ ٹیسٹ جسم کے اعضا کی عمر کا اندازہ لگانے میں کتنا کارآمد ہے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر کورے کی پچھلی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ حیاتیاتی عمر بڑھنے کا عمل یکساں نہیں ہے اور یہ زندگی کی تیسری دہائی کے وسط، چھٹی دہائی کے آغاز اور ساتویں دہائی کے اختتام پر اچانک تیز ہو جاتا ہے۔
کوئین میری یونیورسٹی آف لندن میں بڑھتی عمر کے ساتھ اس کی صحت اور اس سے متعلقہ امراض کے ماہر پروفیسر جیمز ٹمنز نے مشیل رابرٹس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر وائس کی تازہ ترین تحقیق متاثر کن ہے لیکن اسے اب بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں پر تجربہ کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر نوجوانوں اور مختلف نسل کے لوگوں پر ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔‘
پروفیسر ٹمنز حیاتیاتی عمر کے خون پر نشانات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’کیا یہ عمر بڑھنے کے بارے میں ہے یا جسم میں ابتدائی بیماری کے بائیو مارکر کی شناخت کے بارے میں ہے؟‘
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگرچہ وائس کی تحقیق یقینی طور پر بڑھتی عمر کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن بیماری کی علامات کے اظہار جیسے بائیو مارکر کے خیال کو رد نہیں کیا جا سکتا۔بائیو مارکر کی اہمیت
گوہاٹی میڈیکل کالج اور ہسپتال کی ایسوسی ایٹ پروفیسر پلوی گھوش نے بی بی سی کی نامہ نگار انجلی داس کو بتایا: ’بائیو مارکرز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حیاتیاتی خلیے میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ کسی شخص کی صحت کے بارے میں ابتدائی وارننگ سگنل کے طور پر کام کرتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں: ’بائیو مارکر کلینیکل پریکٹس میں تیزی سے اہم ہوتے جا رہے ہیں، چاہے کسی بیماری کی پیشن گوئی کرنے کے لیے یا کسی بیماری کے علاج یا نگرانی کے لیے، اور مریض کی دیکھ بھال کے ہر قدم پر نظر رکھنے کے لیے یہ مفید ہے۔ ایک ہی بیماری کی علامات دو لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں اور ایسے میں بائیو مارکر اس بیماری کی شناخت اور پیمائش کرنے کا ایک موثر طریقہ فراہم کرتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’صرف بائیو مارکرز کی تعداد ہزاروں میں ہے جو چھ سو پچاس سے زیادہ جسمانی حالات کی نشاندہی یا پیش گوئی کرتے ہیں۔‘
پروفیسر پلوی کا کہنا ہے کہ ’یقیناً یہ تحقیق ابھی نئی ہے لیکن اس نے ایک سمت تو ضرور دی ہے۔ تاہم، میری رائے میں دل، دماغ، گردے، پھیپھڑوں، ہڈیوں جیسے اعضا کی بڑھتی عمر کے عدم استحکام کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘