’اپنی ساری سروس میں اتنی لائق طالبہ نہیں دیکھی تھی۔۔۔‘ رقیہ نجف جو کرم میں نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہوئیں
رقیہ نجف آسڑیلیا سے آنے والے اپنے بھائی ڈاکٹر قیصر کو ملنے 10 دن کی چھٹیوں پر پارہ چنار آئی تھیں جس کے بعد واپسی پر خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں اس مسافر کوچ پر فائرنگ ہوئی جس میں وہ اپنے بھائی اور والد کے ہمراہ سوار تھیں۔
پشاور کے انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ سائنس میں زیرِ تعلیم رقیہ نرسنگ میں اپنا ایم ایس مکمل کرنے کے بعد آبائی علاقے پارہ چنار میں ہی خدمات سر انجام دینا چاہتی تھیں۔ ان کے استاتذہ کے مطابق وہ انتہائی قابل طالبہ تھیں جو مریضوں کی مدد کے لیے ہر وقت دستیاب رہتی تھیں۔
گذشتہ روز لوئر کرم میں مسافر کوچ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ پولیس نے ابتدائی تفتیش میں اسے دہشتگردی کا واقعہ قرار دیا جس میں دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے میں رقیہ ہلاک جبکہ ان کے بھائی اور والد زخمی ہوئے ہیں۔
رقیہ نجف کے چچا زاد بھائی عارف حسین کے مطابق رقیہ کے سوگواران میں سات بہن بھائی اور والدین شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری ان (رقیہ) سے آخری مرتبہ بات ہوئی تو وہ کہہ رہی تھیں کہ ہماری قوم کو طب کے شعبے میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی مدد کرسکیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلی ترجیح اپنی قوم اور علاقے کی خدمت کرنا ہے۔‘
انسٹیٹیوٹ آف نرسنگ سائنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر دلدار محمود نے رقیہ کو مثالی طالبہ قرار دیا اور کہا کہ ’سب اساتذہ ان سے انتہائی خوش اور مطمئن تھے۔۔۔ ہم رقیہ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘
پشاور کے رحمان میڈیکل سینٹر سے بی ایس نرسنگ کی ڈگری کے بعد رقیہ نے کچھ دیر کے لیے کام کیا اور اس کے بعد ایم ایس نرسنگ میں داخلہ لیا۔
’رقیہ کا ہم سے بچھڑ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے‘
ایم ایس نرسنگ میں رقیہ نجف کی قریبی دوست اور کلاس فیلو ماریہ بشریٰ کا کہنا تھا کہ ’سوچ کر ہول اُٹھ رہے ہیں کہ رقیہ کو کیوں اور کس نے قتل کیا۔ وہ تو ہر وقت ایک ہی بات کرتی تھی کہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے علاقے میں کام کروں گی۔ اپنے علاقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں گی، اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے کام کروں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارہ چنار ایک ایسا علاقہ ہے جہاں لوگ سرکاری ملازمت کرنے بھی نہیں جاتے۔ ’وہاں کے لوگ وہ علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں جاتے تھے جبکہ رقیہ کے پاس مواقع بھی تھے مگر وہ پھر بھی کہتی تھی کہ نہیں مجھے پارہ چنار جانا ہے۔‘
ماریہ بشری کا کہنا تھا کہ وہ ایم ایس کرنے کے بعد ’نرسنگ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھی، اس کے لیے اس نے منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی۔‘
انھوں نے رقیہ کے قتل کو نرسنگ کے شعبے کے لیے بڑا نقصان قرار دیا کیونکہ نرسنگ ’ان کا شوق اور جنون تھا جس میں خاندان، والدین اور منگیتر سب کی حمایت تھی۔ جب بھی چھٹیاں ہوتیں تو ان کے والد انھیں لینے آتے اور جب چھٹیاں ختم ہوتیں تو وہ خود واپس چھوڑنے آتے۔‘
ماریہ بشریٰ کے بقول رقیہ کے والد کہتے تھے کہ ’آپ نے ایسا کچھ کرنا ہے کہ جس پر ہمارا علاقہ اور ہم سب آپ پر فخر کرسکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ رقیہ نے ’بہت کم عمر پائی تھی (مگر) اپنی زندگی میں لمبی چوڑی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اگر زندگی اس کو مہلت دیتی تو یقین کریں وہ انسانیت کی بہت خدمت کرتی۔‘
رحمان میڈیکل سینٹر میں رقیہ نجف کے شفٹ انچارج عبدالشکور کہتے ہیں کہ بی ایس کے بعد رقیہ نے ’میرے ساتھ ہی خدمات انجام دی تھیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھیں جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر کام کرتی تھیں۔ جو مریضوں کا خیال اپنے سے بڑھ کر رکھتی تھیں اور ہر وقت دستیاب ہوتی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اکثر اوقات جب رقیہ کے ڈیوٹی اوقات نہیں ہوتے تو اس وقت میں ان سے اگر کہتا کہ مجھے کچھ وقت چاہیے تو وہ ہمہ وقت دستیاب ہوتی تھیں۔ ہمارے ادارے میں مریضوں کی بہبود کا مرکز قائم ہے جہاں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران انھوں نے تین مرتبہ خون کا عطیہ دیا تھا۔‘
عبدالشکور کا کہنا تھا کہ رقیہ کے نہ صرف عزائم بلند تھے بلکہ وہ بلند کردار کی مالکہ تھیں۔ ’میں نے اپنی ساری سروس میں اتنی لائق، رحم دل، ہمدرد اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی طالبہ نہیں دیکھی۔ اب وہ ایم ایس کر رہی تھیں مگر ان کی منزل پی ایچ ڈی تھی جو وہ نہ کرسکیں جس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔‘
تین روزہ سوگ اور احتجاج
ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے واقعات میں گذشتہ ایک سال میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پولیس کے پاس ایسے اعدادوشمار دستیاب نہیں کہ وہ بتا سکیں کہ کتنے واقعات ہوئے اور کتنے افراد کی ہلاکت ہوئی۔
تاہم ضلع کرم ایجنسی کے صحافی عصمت علی زئی کے مطابق لوئر کرم کے علاقے میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے واقعات میں گذشتہ ایک سال میں کم از کم بیس افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ تیس کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ اس واقعے سے قبل بھی مسافر گاڑی پر فائرنگ میں لوئر کرم ہی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ہی علاقے کے پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ڈی پی او کرم ایجنسی محمد ابراہیم کے مطابق واقعات کی تعداد اس سے کم ہے مگر پہلے جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں قریب 12 ملزمان کو گرفتار کیا گیا جس میں کچھ اس وقت جیلوں میں مقدمات کے آغاز کا انتظار کررہے ہیں اور کچھ کے ٹرائل جاری ہیں۔
محمد ابراہیم کے مطابق علاقے میں سکیورٹی کو انتہائی سخت کر دیا گیا ہے۔ ’یہ دو متخارب قبائل کے درمیاں سالوں پرانی دشمنی ہے جس کے نتیجے میں ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ان واقعات پر قابو پانے کے انتظامات کیے جاتے ہیں اور کیے جا رہے ہیں۔‘
انجمن تاجران پارہ چنار کے صدر حاجی روف حسین طوری کا کہنا تھا کہ طوری بنگش اقوام کا آج جرگہ منعقد ہوا جس میں مجموعی طور پر فیصلہ کیا گیا کہ سڑک بند کرنے کا احتجاج نہیں کیا جائے گا۔ ’تین روز تک کرم میں سوگ منایا جائے گا۔ ان تین روز کے دوران ہمارے لوگ اپنی پبلک اور پرائیوٹ گاڑیوں کو روڈ پر نہیں لائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جرگے میں فیصلہ ہوا کہ سوگ کے تین روز تک حکومت کے پاس بھی مہلت ہے کہ وہ سوچے اور فیصلہ کرے کہ وہ اپنی عملداری کو کیسے نافذ کرے گی۔ ’تین روز بعد ہمارا دوبارہ جرگہ ہوگا۔ اس جرگے میں حکومت کی جانب سے کیے گئے انتظامات، اقدمات اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے پیشرفت کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائے گا۔‘
ضلع کرم سے موصول اطلاعات کے مطابق تمام شاہراہوں پر ٹریفک معمول سے انتہائی کم ہے۔
رقیہ کے والد نجف علی نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’میں اپنی فیملی اور اپنے خطے کے سب لوگوں کو سلام کرتا ہوں۔ رب کا عظیم کرم ہے کہ میری حالت اب ٹھیک ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک موقع تھا لیکن جب تک رب نہ چاہے کوئی کسی کی جان نھیں لے سکتا۔
’میں آپ سب کو صبر اور حوصلے کی تلقین کرتا ہوں کہ اپنے معاملات صبر اور حوصلے سے انجام دیں۔‘