ہمارے گھر کے سٹور یا پرانا اور ناکاردہ سامان رکھنے والے کمرے میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہوتی ہیں جن کی وقعت ہمیں کاٹھ کباڑ سے زیادہ نہیں لگتی اور موقع ملتے ہی ہم ایسی بظاہر بےمصرف اشیا کو کباڑیے کے حوالے کر دیتے ہیں۔
لیکن یاد رکھیے ہر پرانی نظر آنے والی چیز کباڑ نہیں ہوتی، کیا پتا یہ کوئی نایاب خزانہ ہو! اس لیے کوئی بھی چیز پھیکنے یا کباڑیے کے حوالے کرنے سے پہلے اس کی اچھی طرح جانچ ضرور کر لیں ورنہ فرانس کے اس معمر جوڑے کی طرح ہاتھ ملتے رہ جائیں گے جنھوں نے لاکھوں یوروز کا نایاب ماسک محض چند یوروز میں فروخت کر ڈالا۔
تو کہانی کچھ یوں ہے کہ فرانس کے ایک معمر جوڑے کے گھر کے بالائی حصے سے ملنے والے نایاب افریقی ماسک کی فروخت سے حاصل ہونے والی 42 لاکھ یوروز کی بڑی رقم ایک استعمال شدہ اشیا کی خرید و فروخت کرنے والے ڈیلر (سیکنڈ ہینڈ ڈیلر) نے اپنے پاس رکھنے کا مقدمہ جیت لیا ہے۔
اس ڈیلر کو معمر میاں بیوی نے اپنے گھر کے بالائی حصے کو صاف کرنے میں مدد کے لیے بلایا تھا۔
صفائی کے دوران معمر جوڑے نے وہاں سے ملنے والے ایک ماسک کو بےکار سی چیز سمجھ کر اسی ڈیلر کو 150 یورو یعنی 165 ڈالر میں فروخت کر دیا۔
150 یورو میں ملنے والے اس نایاب ماسک کو فروخت کر کے ڈیلر نے 42 لاکھ یوروز کی رقم کمائی۔
بعد میں جوڑے نے اس شخص کے خلاف مقدمہ دائر کرکے یہ دلیل دی کہ انھیں اس نایاب ماسک کی قیمت کے بارے میں ڈیلر کی جانب سے گمراہ کیا گیا تھا۔ لیکن جج نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود (مالک یعنی معمر جوڑا) اس فن کے نمونے کی حقیقی قیمت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
گیبون کے فینگ قبیلے کے افراد کی جانب سے تیار کردہ نایاب ’نگل ماسک‘ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے موجود صرف 10 ماسکوں میں سے ایک ہے، جسے نگل سیکرٹ سوسائٹی کے ممبران نے رسومات کی ادائیگی کے دوران پہنا ہو گا۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ اس سوسائٹی کے ارکان نے مشتبہ جادوگروں سمیت مسائل پیدا کرنے والوں کی تلاش میں مختلف دیہاتوں کا سفر کیا تھا۔
انیسویں صدی کا لکڑی کا ماسک ممکنہ طور پر 1917 کے آس پاس فرانسیسی نوآبادیاتی گورنر اور مدعی (معمر جوڑا) کے دادا رینے وکٹر ایڈورڈ مورس فورنیئر نے ’نامعلوم حالات میں‘ حاصل کیا تھا۔
یہ اس وقت تک خاندان کی تحویل میں رہا جب تک کہ اسے ڈیلر کو فروخت نہیں کر دیا گیا۔
جوڑے نے فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے حصہ لینے کے لیے عدالت کا رخ کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ڈیلر نے انھیں ماسک کی اصل قیمت کے بارے میں گمراہ کیا تھا۔
ڈیلر نے اس بات سے انکار کیا کہ اسے اس کے قیمتی ہونے کا علم تھا اور اس نے جوڑے کو تین لاکھ یورو کی پیشکش کر کے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے، جو ماسک کی ابتدا میں لگنے والی قیمت تھی۔ تاہم جوڑے نے اس آفر کو مسترد کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔
ڈیلر کے وکیل نے عدالت میں دلیل دی کہ یہ جوڑا اسے فروخت کرنے سے پہلے اس کی اصل قیمت پر تحقیق کرنے میں ناکام رہا تھا۔
وکیل نے فرانسیسی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ کے گھر میں ایسی کوئی چیز موجود ہو تو اسے دینے سے پہلے آپ کو تھوڑا زیادہ تجسس ہونا چاہیے۔ ‘
جج نے ڈیلر کے حق میں فیصلہ سنایا اور کہا کہ جوڑا ماسک کی ’تاریخی‘ قدر و قیمت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہے۔
ڈیلر نے جوڑے کی جانب مقدمہ دائر کرنے کے بعد تین لاکھ یورو دینے کی اپنی پیشکش واپس لے لی تھی۔
یہ درخواست بھی کی تھی کہ ماسک کی فروخت کو اس بنیاد پر روک دیا جائے کہ یہ ملک کا حق ہے۔ لیکن عدالت نے اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا۔