غزہ سے تعلق رکھنے والے چھ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیلی فوج نے تقریباً ایک ماہ کی حراست کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایا، انھیں مارا اور پیٹا گیا۔
ان میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں نے اُن کی دائیں ٹانگ میں گولی ماری، جسے بعد میں کاٹنا پڑا، اس سب کے باوجود اُنھیں اور دیگر کو حراست میں لے لیا گیا۔
جنگی قوانین کے تحت تمام قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا جانا چاہیے۔
تاہم اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے پاس اس شخص کے دعوے سے متعلق تحقیقات کے لیے زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر تحقیقات کی جا سکیں کہ کب اور کن حالات میں یہ سب ہوا۔
آئی ڈی ایف کے ترجمان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے۔
اسرائیل نے ان افراد کو جمعرات 14 دسمبر کو اسرائیل سے غزہ جانے والی کریم شالوم سرحدی گزرگاہ پر رہا کیا۔
اس کے بعد ان افراد نے غزہ کے جنوب میں رفح میں محمد یوسف النجار ہسپتال میں علاج کروایا۔
اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والے درجنوں سابق قیدی وہاں موجود تھے۔ جن میں سے صرف سات افراد وہ تھے کہ جنھوں نے مُجھ سے بات کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔
چار افراد ہسپتال میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ایک ہی بستر پر قطار میں بیٹھے ہوئے تھے، جبکہ پانچواں ان کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا۔
ان سبھی نے ہلکے سرمئی رنگ کے ٹریک سوٹ پہن رکھے تھے اور انتہائی تکلیف کے عالم میں اپنی زخمی کلائیوں کو تھامے ہوئے تھے، جن پر گہری چوٹوں اور زخم اب بھی موجود تھے۔
تاہم اسرائیل کی قید سے رہا ہونے والوں میں کچھ فلسطینی ایسے بھی تھے کہ جن کے ہاتوں میں اب بھی سفید پلاسٹک کی ٹائیز یا ہتھکڑیاں موجود تھیں جو انھیں حراست میں لیے جانے کے وقت آئی ڈی ایف کی جانب سے پہنائی گئیں تھیں۔
آئی ڈی ایف کی قید سے رہا ہونے والے فلسطینی محمد داؤد نے کہا کہ انھیں اس لیے حراست میں لیا گیا کیونکہ انھوں نے اسرائیل کے جنوب کی طرف جانے کے حکم کی پیروی کی تھی۔
انھوں نے مُجھ سے بات کرتے ہوئے دُکھ بھرے لہجے میں کہا ’ہم شمال میں بیت لاہیا سے آئے تھے اور محفوظ راہداری کے ذریعے جنوب کی طرف بڑھ رہے تھے جب مُجھے حراست میں لیا گیا۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’انھوں (آئی ڈی ایف) نے ہمیں وہاں سے پکڑا، انھوں نے ہم سے پوچھ گچھ کی، یہ جاننے یا کہلوانے کی کوشش کی کہ کیا آپ حماس ہیں؟ کیا آپ اسلامی جہاد کر رہے ہیں؟‘
محمد داؤد نے مُجھے بتایا کہ انھیں 26 دن تک حراست میں رکھا گیا اور بالآخر رہا کر دیا گیا کیونکہ ’انھیں ہم سے وہ نہیں ملا شاید جس کی انھیں تلاش تھی۔‘
آئی ڈی ایف نے 14 نومبر کو غزہ کے شمال سے فلسطینیوں کے لیے جنوب میں موجود راہداریوں کو انخلا کی غرض سے عارضی طور پر کھولنے کا اعلان کیا۔
اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے اسے صلاح الدین ہائی وے کے ساتھ انسانی مقاصد کے لئے ایک ’محفوظ راستہ‘ قرار دیا۔
آئی ڈی ایف کی جانب سے مردوں کی سکریننگ اور حراست میں لیے جانے کی اطلاعات ہیں۔
محمد داؤد نے کہا کہ ’مجھے باندھ دیا گیا تھا اور دیگر تمام مردوں کی طرح میری آنکھوں پر بھی پٹی باندھی گئی تھی۔‘
انھوں نے مجھے مزید بتایا ’انھوں نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی، ہم پر تھوکا اور ہماری بے عزتی کی۔ وہ ہمارے ساتھ انتہائی بے رحمی سے پیش آئے، ہم سب کو مارا پیٹا گیا۔‘
داؤد نے بتایا کہ ’اگر کوئی انھیں یہ کہتا کہ وہ بیمار ہیں یا ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی ہے تو وہ (اسرائیلی فوجی) جواب دیتے کہ ’ہماری بلا سے، چاہے یہیں مر جاؤ۔‘
’جس کے بعد وہ انھیں ہتھکڑیوں سے پکڑتے اور لٹکا دیتے۔‘
آئی ڈی ایف کے ترجمان نے خاص طور پر اس الزام کو مسترد کیا۔
آئی ڈی ایف نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم قیدیوں کو ہتھکڑیاں لگانے کے نتیجے میں چوٹوں کے بارے میں، واضح کرتے ہیں کہ قیدیوں کو خطرے کے پیش نظر ایسا کیا گیا تاہم اس دوران اس سب کے دوران اُن کی صحت کے مطابق اُن کے ساتھ سلوک روا رکھا گیا۔‘
آئی ڈی ایف کی جانب سے کہا گیا کہ ’انھیں (فلسطینی قیدیوں) کو کبھی بھی کلائیوں میں بندھی ہتھکڑیوں سے نہیں لٹکایا گیا۔‘
محمد نے کہا کہ ’ہمیں موسم کی شدت میں بھی صرف ایک کمبل دیا جاتا تھا اور بارش میں ہمیں باہر رکھا گیا، جبکہ کھانا اور پانی بھی کم ملا۔‘