اسلام آباد — جمعرات کو 36 منٹ تاخیر سے قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن کے کسی مطالبے کے بغیر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بلوچستان میں ہونے والے ٹرین ہائی جیکنگ والے واقعے پر معمول کی کاروائی مؤخر کرکے بحث کرانے کا اعلان کیا ۔
جمعرات کو سب سے پہلے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کو تقریر کے لیے فلور دیا گیا ۔ وزیرِ دفاع نے بلوچستان ٹرین ہائی جیکنگ کی تفصیلات بتائے بغیر پی ٹی آئی اور اپوزیشن لیڈر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔
خواجہ آصف کے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے اراکین نے شور شرابہ کیا ان کی تقریر کے دوران جملے کسے اور رکاوٹ پیدا کرتے رہے جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ ریمارکس دیے کہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بینچز سے کسی نے رکاوٹ نہیں ڈالی تھی ۔
قرارداد
بلوچستان میں ہونے والے ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے خلاف مذمتی قرارداد پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے پیش کی ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ متفقہ قرارداد ہے اس کے ڈرافٹ پر تمام پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے دستخط کیے ہیں۔
قومی اسمبلی کی جانب سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے ، شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کے امن کو تباہ کرنے والی دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔جعفر ایکسپریس واقعے پر ہماری افواج نے بڑے نقصان سے بچایا ،دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ پر پوری قوم فخر کرسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نہتے مسافروں کو قومیت اور صوبائی بنیادوں پر علیحدہ کیا گیا۔
خواجہ آصف نے اپوزیشن لیڈر کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کل ہمیں ایسے لوگوں نے فارم 47 کاطعنہ دیا جو مارشل لا کی پیداوار ہیں اور ان کے بڑوں نے آئین سے تجاوز کیا ۔اس کے بعد انہوں نے اپنے مقبول الفاظ دہرا دیے کہ ‘کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔’
پی ٹی آئی اراکین کے شور کرنے اور جملے کسنے کے باوجود اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی حکومت میں جنرل باجوہ، جنرل فیض بریفنگ دے رہے تھے کہ دہشت گردوں کو ملک میں بسانا ملک کی بہتری کے لیے ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پاکستان کے بقا کی جنگ لڑے عمران خان کی بقا کی جنگ نہ لڑے ۔
بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان واقعے پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے جب میں چھوٹا بچہ تھا تب مجھے وزیر اعظم کے گھر سے اٹھانے کی کوشش کی گئی۔
اس واقعے کے بعد مجھے محترمہ بینظیر نے ملک سے باہر رکھا ۔مذہبی لسانی دہشت گردوں نے محترمہ بینظیر پر بھی حملوں کی کوشش کی آخرکار وہ دہشت گردی کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار گئیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے شہریوں نے حصہ ڈال کر پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کردیا تھا تاہم افسوس ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تمام کامیابیاں کھو بیٹھے ہیں اور اس وقت ماضی سے زیادہ خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کو بلوچستان واقعے کی تفصیلات پیش کرنی چاہئیں۔ لیکن انہوں نے پی ٹی آئی پر الزام عائد کردیا کہ ان کی تقریر نکالیں دیکھیں کے کتنی مرتبہ انہوں نے بلوچستان کا نام لیا ان کے ذہن پر پی ٹی آئی اور سوشل میڈیا سوار ہے۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی اور قومی اسمبلی میں عوام کی نہیں فارم 47 کی نمائندگی ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں جب ایم کیو ایم کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار تقریر کر رہے تھے تب پی ٹی آئی سے نکالے گئے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نشست پر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کے یہ بار بار باتیں دہرا رہے ہیں ۔
شیر افضل مروت کے احتجاج کے باعث ڈاکٹر فاروق ستار کو تقریر مختصر کرنی پڑ گئی جس کے بعد فلور شیر افضل مروت کو دیا گیا ۔
شیر افضل مروت نے بلوچستان کے مسئلے پر جو تقریر کی اس حوالے سے ایک سینئر صحافی کا کہنا تھا کے آج کے اجلاس میں سب سے اچھی تقریر شیر افضل مروت اور محمود خان اچکزئی نے کی ہے ۔
شیرافضل مروت کا کہنا تھا کہ فاروق ستار اپنے حلقے سے انتخاب ہارگئے تھے باقی تقریر انہوں نے ٹھیک کی ہے ۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علی وزیر کئی مہینوں سے جیل میں ہیں ماہ رنگ بلوچ پر اسلام آباد میں پانی پھینکا گیا ،منظور پشتین، علی وزیر پاکستان مخالف تو نہیں ہیں ۔ان کو جیلوں میں رکھنے، دبانے سے حالات ٹھیک ہوتے تو آج تک ہو جاتے۔
جعفر ایکسپریس پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فوج کو بالکل خراج تحسین پیش کریں لیکن ہم کیا ہر وقت مذمت ہی کرتے رہیں گے۔کیا یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیکیورٹی فورسز کو چوکنا رہنا چاہیے ؟
ان کے مطابق ایجنسیوں کو سیاست دانوں کے پیچھے لگایا ہے ہمارے دور میں یہ آپ کے پیچھے تھی اور آج ہمارے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
اپنی تقریر میں محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ ہم نے دوسروں کی جنگ میں کود کر مسجدوں اور امام بارگاہوں کو خون سے رنگ دیا ۔
ان کے مطابق جب تک پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ نہیں بنائیں گے ہر ادارہ آئینی حدود میں نہیں رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ، سندھی پختون مرضی سے پاکستان میں شامل ہوئے تھے ،صوبوں کے وسائل پر ان صوبوں کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا بلوچوں کو آئینی، عالمی گارنٹی دے دیں تو جو صوبے کے وسائل ہیں ان پر حق آپ کا ہے تو دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔