|
صدر ڈونالڈ ٹرمپ نےبرطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر کی طرف سے یوکرین کیلئے مزید امریکی فوجی امداد کے وعدے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، جمعرات کو کہا کہ امریکہ کے ساتھ یوکرین کامعدنیات کا معاہدہ ہی کیف کے لیے روس کے خلاف حفاظتی ضمانت ہے۔
اسٹارمر نے جوٹرمپ کے عہدہ کی دوسری مدت کے آغاز کے بعد ، پہلی بار ان سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے تھےتوجہ دلائی کہ یوکرین میں امن صرف ٹرمپ کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین میں امن فوج کی تعیناتی کی کسی بھی تجویز کو مسترد کر دیاہے۔ انہوں نے جمعرات کو کہا کہ “مغربی اشرافیہ” ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان نئے مذاکرات میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسٹارمر صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے تازہ ترین یورپی رہنما ہیں۔
ان اتحادیوں کے درمیان نجی گفتگو میں یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کے مقصد سے امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی بات چیت پر اختلافات شامل تھے۔
پریس کانفرنس سے پہلے اسٹارمر نےدلیل دی تھی کہ یوکرین میں مضبوط امریکی حفاظتی ضمانتوں کے بغیر طویل مدتی امن قائم نہیں ہو سکتا -جسے ٹرمپ نے مسترد کر دیا۔
ٹرمپ نے معاہدے کے بعدکسی ممکنہ تنازعے کے بارے میں کہا” اسے روکنے والےہم ہیں کیونکہ اقتصادی شراکت داری کے نتیجے میں ہم وہاں ہونگے ، ہم کام کریں گے۔ہمارے پاس وہاں بہت سارے لوگ ہوں گے۔
“یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے،” ٹرمپ نے جنگ بندی ڈپلومیسی کے بارے میں کہا، “یہ (معاہدہ)یا تو کافی جلد ہو جائے گا یا یہ بالکل نہیں ہو گا۔”
اسٹارمر نے ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمیں اسے درست کرنا ہے۔ “وہ امن نہیں ہو سکتا جو حملہ آور کو انعام دے۔”
لیکن اتحادیوں کے درمیان بنیادی اختلافات اس کے بعد ہونے والی نجی گفتگو کے لیے میز پر رہے۔ ان میں یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کے مقصد سے امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والی بات چیت پر عبوری تنازعات شامل ہیں۔
میٹنگ سے پہلے، اسٹارمر نےکہاتھا کہ یوکرین میں مضبوط امریکی حفاظتی ضمانتوں کے بغیر طویل مدتی امن نہیں ہو سکتا ٹرمپ نے اس استدلال کو مسترد کر دیا۔
امریکہ برطانیہ دو طرفہ تجارتی معاہدہ
امریکہ اور برطانیہ ایک دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعرات کو برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس طرح کے معاہدے سے امریکی محصولات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
“ہم ایک زبردست تجارتی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں،” ٹرمپ نے کہا۔ “ہم دونوں ممالک کے لیے ایک بہت عمدہ تجارتی معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔”
اسٹارمر نے بھی کہا کہ دونوں ممالک نے پہلے سے مضبوط تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے ایک نئے اقتصادی معاہدے پر کام شروع کر دیا ہے، جس کا مرکز جدید ٹیکنالوجی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ دونوں اتحادیوں کے درمیان تجارتی معاہدے کے کسی خاکہ پر “بہت جلد” اتفاق کیا جا سکتا ہے۔اور یہ کہ ان کے وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، نائب صدر جے ڈی وینس،وزیر تجارت ہاورڈ لوٹنک اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز ان کوششوں کی قیادت کریں گے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسٹارمر نے انہیں دھمکی آمیز جوابی محصولات سے دست بردار ہونے کےلیے اضامند کر لیا ہے، ٹرمپ نے اسٹارمر کی گفت و شنید کی مہارت کی تعریف کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں کہا، “انہوں نے کوشش کی تھی”۔
انہوں نے مزید کہا، مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ایسےحقیقی تجارتی معاہدے کی طرف جا سکتے ہیں جہاں ٹیرف ضروری نہیں ہوں گے۔
توقع ہے کہ زیلنسکی جمعہ کو واشنگٹن میں ہوں گے تاکہ وہ نایاب معدنیات پر ٹرمپ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کریں، یہ معاہدہ یوکرین کے رہنما نے کہا کہ مزید امریکی امداد پر انحصار کرے گا۔
ٹرمپ نے اس معاہدے کو یوکرین کی مدد کے لیے خرچ کی گئی امریکی رقم کی واپسی کے طور پر پیش کیا۔ اس میں یوکرین کے لیے کوئی مخصوص حفاظتی ضمانتیں شامل نہیں ہیں۔
اسٹارمر نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ برطانیہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کرے گا اورمتوقع طور پر وہ امریکی صدر کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ روس کے ساتھ امن مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں یورپ یوکرین کو مدد اور تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ دفاعی اخراجات میں اضافے کے اسٹارمر کے وعدوں سے خوش ہیں۔
پوٹن نے جمعرات کو “مغربی اشرافیہ” کو روس اور امریکہ کے درمیان ممکنہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے سفارت کاروں اور انٹیلی جنس خدمات کو استعمال کرے گا۔ یہ ریمارکس واضح طور پر یورپی یونین اور برطانیہ کے حوالے سے تھے۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ “بہت جلد” برطانیہ کے ساتھ تجارتی معاہدے تک پہنچا جائے گا۔ اس سے چند گھنٹے قبل ان کے ایک معاون نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ “برطانیہ کے ساتھ باہمی اور مساوی تجارت پر مبنی اقتصادی تعلقات” کے خواہاں ہیں۔
اوول آفس میں، اسٹارمر نے کنگ چارلس کی طرف سے سرکاری دورے کے لیے دعوت نامہ کا خط دیا۔ جسےٹرمپ نے قبول کر لیا۔ تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔
اوول آفس میں، ٹرمپ نے یورپی یونین کے ساتھ تجارتی تعلقات کے بارے میں شکایت کی، جس سے برطانیہ 2020 میں الگ ہوگیا تھا۔
اسٹارمر نے کہا “ہماری تجارت ظاہر ہے منصفانہ اور متوازن ہے،” “اور درحقیقت آپ کو تھوڑا سا سرپلس ملا ہے اس لیے ہم ایک مختلف پوزیشن میں ہیں۔” امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق، برطانیہ کے ساتھ امریکہ کی تجارت میں اسے سرپلس حاصل ہے۔
فرانسیسی صدر میکرون کی پیر کو ملاقات کے بعد اسٹارمر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے تازہ ترین یورپی رہنما ہیں. میکرون کی بات چیت میں بھی روس کی یوکرین کے ساتھ جنگ اور امریکہ کی جانب سے فوری جنگ بندی کے لیے دباؤ کے بارے میں سخت اختلافات سامنے آئے تھے۔
یہ رپورٹ رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔