’’میں نیویارک ائیر پورٹ پر تن تنہا اپنے جوتے ہاتھ میں پکڑے اپنا ایک سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے اس کاؤنٹر کی طرف بھاگ رہی تھی جہاں سے مجھےبوسٹن جانے کا جہاز مل سکے جہاں ائیر پورٹ پر میرے شوہر مجھے رسیو کرنے کے منتظر تھے ۔‘‘
یہ کہانی ہے 35 سال قبل بوسٹن میں زیر تعلیم اپنے شوہر کے پاس آنے والی سلمیٰ علی خان کی ، جو آج کل کیلی فورنیا میں مقیم ہیں۔
وائس آف امریکہ کو اپنی پریشان کن آپ بیتی قہقہے لگا کر سنانے والی سلمی خان نے بتایا کہ ، یہ میری ایڈونچر کی پرانی عادت تھی یا ٹی وی اور ریڈیو کی ایک براڈ کاسٹر کے طورپر میری خود اعتمادی کہ میں نے شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد بوسٹن میں زیر تعلیم اپنے شوہر کے پاس جانے کے لیے پاکستان سے اکیلے ہی سفر کرنے کا فیصلہ کیا ۔
انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ عام طور پر ٹریول ایجنٹ ہی لے کر دیا کرتے تھے ۔ اور مجھے بھی ایک ایسے ہی ایجنٹ نے یہ ٹکٹ دلوادیا ۔ ائیر پورٹ پر مجھے میرے عزیز رشتے دار رخصت کرنے آئے اور میں خوشی خوشی پشاور ائیر پورٹ سے امریکہ جانے والے جہاز پر سوار ہو گئی۔
اپنے شوہر سے ملنے اور امریکہ دیکھنے کا شوق مجھے ایک عجیب سی خوشی سے سرشار کررہا تھا ۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ جہاز نیو یارک جا رہا ہے تومیں بہت پریشان ہوئی اور اپنے ساتھ بیٹھی ایک خاتون سے کہا کہ مجھے تو بوسٹن جانا ہے اور میں غلطی سے اس جہاز میں سوار ہو گئی ہوں لیکن انہوں نے میری پریشانی پر سوائے مسکرانے کے کچھ نہ کیا ۔
مجھ میں اتنا حوصلہ بھی نہ تھا کہ میں کسی ائیر ہوسٹس کو بلا کر اپنا مسئلہ بتاؤں، شاید اس خوف سے کہ مجھے میری غلطی کانہ جانے کیا خمیازہ بھگتنا پڑے ۔ سارا راستہ اس پریشانی میں مبتلا رہی کہ میں بوسٹن کیسے پہنچوں گی جہاں میرے شوہر ائیر پورٹ پر میرا انتظار کر رہے ہوں گے ۔
پھر نیو یارک آگیا اور سب مسافر وں کے ساتھ میں بھی جہاز سے اتر گئی ۔ یہ میرا امریکی سر زمین پر پہلا قدم تھا ۔ نیو یارک ائیر پورٹ کی وسعت کو دیکھ کر میری پریشانی چند لمحوں کے لیے حیرانی میں بدل گئی ۔ مجھے لگا کہ پشاور کا ائیر پورٹ اس کےمقابلے میں بالشت بھر کا ہے ۔لیکن میرے لیے اس وقت اس حیرانی سے زیادہ بوسٹن پہنچنے کی پریشانی تھی۔
جب مجھے کوئی معلوماتی کاؤنٹر نظر نہیں آیا تومیں نے صفائی کرنے والے ایک اہلکار سے پوچھا کہ بوسٹن جانے والا جہاز کہاں سے ملے گاتو اس نے انگوٹھے کے اشارےسے سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ، گو ڈاؤن۔ جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ میں نیچے جاؤں ۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالا تر تھی کہ اتنا بڑا ہوائی جہاز آخر نچلی منزل میں کیسے ہو سکتا ہے۔
بہر طور اس کے کہنے پر میں سیڑھیوں سے نیچے چلی گئی تو پتہ لگا کہ وہ درست کہہ رہا تھا۔ وہاں ہوائی جہاز نہیں بلکہ مختلف ائیر لائنز کے کاؤنٹر تھے۔ میں نے ایک کاؤنٹر پر موجود خاتون کو پریشانی سے بتایا کہ مجھےبوسٹن جانا تھا لیکن میں یہاں نیویار ک پہنچ گئی ہوں۔
اس نےبڑی شائستگی سے کچھ فاصلے پر ایک ائیر لائن کے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ادھر چلی جاؤ۔ بوسٹن جانے والا جہاز جلد روانہ ہونے والا ہے، جلدی سے وہاں پہنچو۔ لیکن اپنے ہیل والے جوتوں کے ساتھ تیزی سے بھاگنا میرے لیے ممکن نہ تھا ۔ مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا بس اپنے جوتے اتارکراپنے ہاتھ میں پکڑے ، اور اپنا سوٹ کیس گھسیٹتے ہوئے تیزی سے اس کے بتائے ہوئے راستے پر بھاگنا شروع کیا۔
میرا تعلق پشاور کے ایک قدرے قدامت پسند گھرانےسے تھا لیکن اس وقت اس بات سے بالکل بے پرواہ ہوگئی کہ ارد گرد کے لوگ مجھے ننگے پاؤں ائیر پورٹ پر بھاگتے دیکھ کر کیا سمجھیں گے یا اگر کسی نے میری اس حالت کی خبر میرے خاندان کو کر دی تو وہ کیا سوچیں گے ،مجھے بس یہی فکر تھی کہ اگر میں اس جہاز پر نہ سوار ہوئی تو میرا کیا بنے گا؟
بہر طور اپنے سوٹ کیس کے ساتھ ہانپتی کانپتی میں اس جگہ پہنچی جہاں سے بوسٹن جانے والا جہاز جلد ہی روانہ ہونے والا تھا۔ وہاں کے عملے نے مجھے جلدی سے جہاز پر سوار کرایا اور میں آخر کار بوسٹن پہنچ گئی جہاں ائیر پورٹ پر میرے شوہر اپنے دوستوں کےساتھ میرے پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے ۔
رات کافی ہو چکی تھی اس لیے راستے کی سڑکوں اور مناظر کو نہ تو میں واضح طور پر دیکھ سکتی تھی اور نہ ہی خود پر بیتی پریشانی کے بعد مجھے گاڑی سے باہر کے مناظر کو دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کا خیال آیا۔
مجھے بہت عرصے تک یہی خیال رہا کہ میں غلطی سے کسی غلط جہازپر سوار ہو گئی تھی لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میں بالکل صحیح ہوائی جہاز پر بیٹھی تھی کیوں کہ مجھے ٹریول ایجنٹ نے جو ٹکٹ دیا تھا وہ براستہ نیویارک بوسٹن تک کا سفر تھا مجھے نیو یارک سے لازمی طور پر جہاز بدل کر ہی بوسٹن جانا تھا۔
لیکن آج سے 35 سال قبل جب میں پہلی بار امریکی سرزمین پر اتری تو مجھے ان ٹیکنیکل باتوں کا علم نہیں تھا اس لیےجس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اس نے مجھے عارضی طور پر اس خوشی سے محروم کر دیا جو مجھے سکون سے اس سرزمین پر پہلی بار قدم رکھتے ہوئے ہوتی جسے خوابوں اور امکانات کی سرزمین کہا جاتا ہے۔
سلمیٰ علی خان نے بتایا کہ وہ امریکہ آنے سے قبل پشاور ٹی وی پر متعدد پروگرام کرتی تھیں جن میں آدھی دنیا اور گھر بار بہت مقبول ہوئے تھے ۔ اور یہا ں مشی گن ائیر پورٹ پر جب ایک خاتون نے مجھے پہچان کر خوشی سے بتایا کہ وہ پاکستان میں میرے پروگرام دیکھا کرتی تھیں تو مجھے لگا کہ میں نے دنیا بھر میں مشہور ہونے کا اپنا ایک خوا ب مکمل کر لیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ براڈ کاسٹنگ کے شوق کے ساتھ ساتھ انہیں لکھنے لکھانے کا شوق بھی ہے اور وہ تین کتابوں کی مصفہ ہیں ، ایک ’پدرم حکیم بود‘ اور دوسری’ دوپٹہ ڈھاکہ کی ململ کا ’۔ جب کہ ان کی تیسری کتاب ، سورج مجھے ساتھ لے چلو ‘ اگلے ماہ شائع ہونے کو ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ پدرم حکیم بو د انہوں نے اپنے والد کی زندگی کے بارے میں لکھی تھی جو ایک بہت قابل حکیم تھے اور ان کی حکمت کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی تھیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ان کتابوں کے معیار سے مطمعن نہیں تھیں کیوں کہ ان میں ان کے والد کہیں نظر نہیں آتے تھے جن کی ذاتی زندگی بھی حکمت اور حکمت عملی کی کہانیوں سے لبریز تھی ۔اوران کی اولاد ہونے کے تناظر میں نےیہ کتاب لکھی اور اس کا عنوان ،’’ پدرم حکیم بود ‘ رکھا ۔ یعنی ’میرے والد حکیم تھے‘۔
میری تیسری کتاب ، سورج مجھے ساتھ لے چلو‘ سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد مغربی پاکستان آنے کی جدو جہد کرنے والے لوگوں کی کہانیوں پر مشتمل ہے۔ جنہیں پاکستان آنے کے لیے کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا اور وہ صرف مشرق سے مغرب کی طرف جانے والے سورج ہی سے کہہ سکتے تھے کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو جہاں تم چلے ہو۔
سلمیٰ علی خان نے بتایا ک امریکہ میں آنے کے بعد انہوں نے اپنے سبھی خواب پورے کیے ۔خاص طور پر اپنے بچوں کے لیے وہ خواب جو ہر ماں دیکھتی ہے۔ وہ سب اللہ کے کرم سےاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کامیاب زندگیاں گزار رہے ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر امریکہ میں اپنے پہلے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا، آج بھی جب امریکی سرزمین پر اپنا پہلا دن یاد آتا ہے تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔