|
ویب ڈیسک—اسرائیل کی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جاری لڑائی میں اس کے مزید تین فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بدھ کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران تین اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے تینوں اہلکاروں کی شناخت بھی ظاہر کر دی ہے جن کی عمریں 20 سے 22 برس کے درمیان تھیں اور ان کا تعلق فوج کی 46 ویں بٹالین کی آرمرڈ بریگیڈ سے تھا۔
اسرائیلی فوج کے مطابق مہلک حملے میں تین دیگر اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔
فوج نے اہلکاروں کی ہلاکت کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج شمالی غزہ کے علاقے بیت الحنون میں آپریشن میں مصروف تھی جب ایک ٹینک پر بارودی مواد آ کر لگا جس سے زور دار دھماکہ ہوا۔
اسرائیلی اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق ٹینک پر حملے کے لیے کئی کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔ دھماکے کے ساتھ ہی ٹینک الٹ گیا تھا۔
’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق فوجیوں کی ہلاکت کا حالیہ واقعہ ایسے موقع پر پیش آیا ہے جب دو روز قبل ہی شمالی غزہ میں شدید لڑائی ہوئی تھی جس میں تین فوجی مارے گئے تھے۔
غزہ جنگ کے دوران اب تک اسرائیل کے 401 فوجی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کو غزہ کے کئی دیگر علاقوں میں بھی کارروائیاں کی ہیں۔
ایک بیان میں فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کو اسرائیلی ایئر فورس کے ہیلی کاپٹر نے حلاوہ اسکول کو نشانہ بنایا ہے۔ اسکول کے اس کمپلیکس کو حماس کمانڈر سینٹر کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ کمپلیکس کے اندر حماس کے جنگجو اسرائیلی فوج پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔
دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ اسکول بے گھر افراد کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
غزہ کے محکمۂ سول ڈیفنس کے مطابق اسرائیل کے اسکول پر حملے میں نو افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے کم سے کم شہری نقصان کے ’متعدد اقدامات‘ کیے جن میں ہدف کی نگرانی اور خفیہ اطلاعات کا حصول شامل ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے سے اسرائیل کے ساتھ کراسنگ پوائنٹ کریم شیلوم پر راکٹ داغا گیا تھا۔ البتہ دفاعی نظام نے اس راکٹ کو فضا میں ہی تباہ کر دیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں میں غزہ سے اسرائیل پر لگ بھگ 20 راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر راکٹ غزہ کے شمالی علاقوں سے داغے گئے تھے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کو غزہ میں کئی علاقوں پر اسرائیلی حملوں میں بڑی تعداد میں فلسطینی مارے گئے ہیں۔
طبی حکام کے مطابق شیخ رضوان میں ایک عمارت کو تباہ کیا گیا جس میں 10 افراد مارے گئے۔ اسی طرح غزہ سٹی کے کئی علاقوں میں لگ بھگ 10 فلسطینی نشانہ بنے۔ دیر البلاح میں بھی سات افراد کی موت ہوئی۔
اسی دوران بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ جنوبی غزہ میں ایک زیرِ زمین سرنگ سے دو یرغمالوں کی باقیات ملی ہیں جن میں سے ایک 53 سالہ یوسف الزیادنی ہیں جب کہ دوسری باقیات کے بارے میں یہ تعین کیا جا رہا ہے کہ آیا وہ ان کے بیٹے حمزہ کی باقیات ہیں۔
واضح رہے کہ غزہ میں جنگ میں تیزی ایسے وقت میں آ رہی ہے جب حماس اور اسرائیل میں امن معاہدے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ دو دن قبل حماس نے اسرائیل پر اکتوبر 2023 کے حملے میں یرغمال بنائے گئے 34 افراد کو رہا کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
اسرائیل بھی کہہ چکا ہے کہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے قطر میں بلا واسطہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں۔
قطر، مصر اور امریکہ کئی ماہ سے ان مذاکرات میں ثالثی کرتے ہوئے فریقین میں معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حالیہ کوشش ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب امریکہ میں انتظامیہ تبدیل ہونے والی ہے اور 20 جنوری کو نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ حلف لے کر صدارت کا عہدہ سنبھال لیں گے۔
حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر دہشت گرد حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔
اس حملے کے فوری بعد اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت نے حماس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔
ایک سال سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ کے دوران حماس کے زیرِ انتظام محکمۂ صحت کے مطابق ساڑھے 45 ہزار سے زائد فلسیطینیوں کی موت ہو چکی ہے جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی لڑائی کے ایک سال تین ماہ میں فریقین کے درمیان صرف ایک بار نومبر 2023 میں چند روز کی عارضی جنگ بندی ہوئی تھی۔
ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی میں حماس نے 80 یرغمالوں کو رہا کیا تھا جب کہ معاہدے کے تحت اسرائیل کی جیلوں میں قید 240 فلسطینیوں کو آزادی ملی تھی۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان یرغمالوں میں سے 34 کی موت ہو چکی ہے۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔