‘قدرتی آفات روک نہیں سکتے لیکن حفاظتی انتظامات نقصانات کم کر سکتے ہیں’

‘قدرتی آفات روک نہیں سکتے لیکن حفاظتی انتظامات نقصانات کم کر سکتے ہیں’ Leave a comment

  • انسان قدرتی آفات روکنے پر قادر نہیں ہے لیکن اس کے نقصانات کم کرنے کے طریقے اختیار کر سکتا ہے۔
  • جنگل کی آگ کا شمار بھی قدرتی آفت کے طور پر کیا جاتا ہے۔
  • جنگل کی آگ کا ایک بڑا سبب زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہے جس سے موسم خشک ہو رہے ہیں۔
  • لاس اینجلس میں جنگل کی آگ کو تیز خشک ہواؤں اور خشک درخت، پودوں اور گھاس پھونس سے پھیلنے کا موقع ملا۔
  • آبادی کے بڑے پیمانے پر انخلا اور پیشگی وارننگ کے نظام سے جانی اور مالی نقصان، جہاں تک ممکن ہو سکا، کم کرنے میں مدد ملی۔
  • جنگل کی آگ کے دھوئیں میں انتہائی نقصان دہ چھوٹے ذرات پی ایم 2.5 ہوتے ہیں جو انسانی صحت کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
  • عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 42 لاکھ افراد فضائی آلودگی سے منسلک بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہلاک جاتے ہیں۔

موسمیات کے عالمی ادارے ورلڈ میٹیرولو جیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ اگرچہ حفاظتی انتظامات سے قدرتی آفات، جیسا کہ لاس اینجلس کی جنگل کی آگ ہے، کو روکا نہیں جا سکتا لیکن اس سے زندگیاں بچانے اور املاک کا نقصان کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

جنیوا میں صحافیوں کو بریفنگ کے دوران ڈبلیو ایم او کی ترجمان کلئیر نؤلی نے کہا کہ حفاظتی انتظامات آگ سے ہوئے والے نقصانات کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور آبادی کے انخلا کے منصوبے انسانی جانیں بچانے کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے قدرتی آفات کے بدترین اثرات کو محدود کرنے کے لیے مناسب انخلا کے منصوبوں اور قبل از وقت خبردار کرنے کے نظاموں کو مؤثر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔

اس ہفتے لاس اینجلس کے مختلف حصوں میں پھیلنے والی تباہ کن جنگل کی آگ سے 10 افراد ہلاک اور دس ہزار سے زیادہ عمارتیں جل چکی ہیں۔ خدشہ ہے کہ آگ سے متاثر ہونے والے علاقوں میں جب صفائی کا عمل شروع ہو گا تو مزید لاشیں بھی مل سکتی ہیں۔

لاس اینجلس میں خشک اور تیز ہواؤں نے آگ کو تیزی سے پھیلنے میں مدد دی ہے۔8 جنوری 2025

جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے موسمیات کے عالمی ادارے کی ترجمان کلئیر نؤلی کا کہنا تھا، خطرے سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام فائدہ مند رہا۔

انہوں نے کہا،’ آپ جانتے ہیں کہ اس سے لوگوں کو آگ سے متاثرہ علاقوں سے نکالنے، ان کی جانیں بچانے اور مالی نقصانات کم کرنے میں مدد ملی‘۔

لاس اینجلس میں جنگل کی تیزی سے پھیلنے والی آگ کے بارے میں ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے بڑا کردار تیز ہواؤں کا تھا۔ ہوائیں درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں کیونکہ وہ زمین اور پودوں کو خشک کر دیتی ہیں۔

ڈبلیو ایم او کامزید کہنا ہے کہ جنگل کی آگ کے پھیلاؤ میں معاون عوامل میں، ہوا میں نمی کی کمی، درختوں، جھاڑیوں، گھاس پھونس اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کا خشک حالت میں ہونا شامل ہے۔ اور یہ وہ عوامل ہیں جن کا براہ راست تعلق آب و ہوا کی تبدیلی اور زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہے۔

ترجمان نؤلی نے کہا کہ اگرچہ ہر قدرتی آفت کا سبب آب و ہوا کی تبدیلی نہیں ہوتی، لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ یہ تبدیلی کئی طرح کی قدرتی آفات کے امکان اور اس کی شدت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے جنگل کی آگ کے ایک اور نقصان دہ پہلو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ جنگل کی آگ کا دھواں، فضائی آلودگیوں کے مجموعے کو جنم دیتا ہے۔

ان آلودگیوں میں سے ایک کا نام پی ایم 2.5 ہے۔ یہ بہت باریک ذرات ہیں جو دھوئیں کی آلودگی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ ذرات انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہیں۔ یہ انسانی پھپھڑوں میں پہنچ کر صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ایم 2.5 ذرات پھپھڑوں، دل، دماغ، اعصابی نظام سمیت اور کئی دیگر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں اور ان کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ذرات اتنے ضرر رساں ہیں کہ قبل از وقت موت کا باعث بن جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ذرات، آتشزدگی کے مقامات پر امدادی کام کرنے والے کارکنوں کو بطور خاص نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان ذرات سے ان کی فکری صلاحیتیں اور یاداشت متاثر ہوتی ہے۔ دھواں فائر فائٹرز اور ایمرجینسی رسپانس ورکرز کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر ہر سال 42 لاکھ اموات کا تعلق فضائی آلودگی سے ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کی 99 فی صد آبادی فضائی آلودگی کی اس سطح کا سامنا کر رہی ہے جو ڈبلیو ایچ او کے طے کردہ محفوظ معیار سے زیادہ ہے۔

(وی او اے نیوز)



Supply hyperlink

Leave a Reply