سزائے موت پر پابندی کے دعوؤں کے باوجود رواں برس 330 افراد کے سر قلم

سزائے موت پر پابندی کے دعوؤں کے باوجود رواں برس 330 افراد کے سر قلم Leave a comment

  • سعودی عرب میں رواں برس 330 افراد کی موت کی سزا پر عمل در آمد کیا گیا ہے۔
  • سزائے موت پانے والوں میں 150 افراد کو قتل کے بجائے دیگر جرائم کے الزامات کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے: این جی او
  • سعودی حکومت کے متعلقہ آفس نے رواں برس سزائے موت پانے والوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے: رپورٹس
  • سعودی عرب میں جبر بڑھ رہا ہے۔ لیکن آپ کو وہ دکھائی نہیں دیتا: مبصرین

ویب ڈیسک — سعودی عرب میں سزائے موت ختم کرنے کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دعوے کے باوجود رواں برس 330 افراد کے سرقلم کیے گئے ہیں۔

رواں برس سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کی یہ تعداد دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق غیر سرکاری تنظیم ‘ریپریو’ کی جانب سے سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں کے مرتب کردہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہو رہا ہے کہ رواں برس 330 افراد کو موت کی سزا دی گئی جو کہ ریکارڈ تعداد ہے جب ک 150 سے زیادہ افراد کو قتل کے بجائے دیگر جرائم کے الزامات کی بنیاد پر سزا دی گئی ہے۔

سزائے موت پانے والوں میں 100 سے زائد غیر ملکی شامل ہیں جن کا تعلق مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے تھا۔

ریپریو کے مطابق گزشتہ برس 172 جب کہ سال 2022 میں 196 افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد ہوا تھا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق سعودی حکومت کے متعلقہ آفس نے رواں برس سزائے موت پانے والوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 2022 میں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو قتل کے مجرم ہیں۔

محمد بن سلمان کے متعارف کردہ وژن 2030 کے تحت سعودی عرب ملک کے سخت مذہبی پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے تاثر کو ختم کر کے سیاحت اور انٹرٹینمنٹ کا مرکز بننے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔

سعودی عرب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کے اقدامات قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہیں۔

ایک عرصے تک سعودی عرب میں خونی چوک کی علامت بننے والا پبلک اسکوائر جہاں ہفتہ وار ملزمان کے سر قلم کیے جاتے تھے، اب وہاں کیفیز اور ریستوران کی بہاریں ہیں۔ اس مقام پر اب ماضی کے نشانات موجود نہیں۔

البتہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ مشرقِ وسطیٰ پر تحقیق کرنے والی محقق دانا احمد کہتی ہیں کہ سعودی عرب میں جبر بڑھ رہا ہے لیکن آپ کو وہ دکھائی نہیں دیتا۔

سزائے موت کے منتظر افراد کے رشتہ داروں نے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘رائٹرز’ کو بتایا ہے کہ انہیں سعودی عرب کے نظامِ قانون میں مشکلات کا سامنا ہے۔

منشیات رکھنے کے الزام میں گرفتار شخص کے خاندان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران وہ کرمنل کورٹ میں ہونے والی سماعتوں میں پیش ہو رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے اپنے رشتہ دار کے خلاف کوئی شواہد نہیں سنے۔ رائٹرز آزاد ذریعے سے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply