|
ناسا کا ایک خلائی جہاز سورج کے اتنے قریب پہنچ گیا ہے کہ اس سے پہلے خلا میں بھیجا جانے والا کوئی جہاز سورج کے اتنے قریب کبھی نہیں گیا تھا۔
دی پارکر سولر پروب کو سورج کے قریب ترین مشاہدات کے لیے 2018 میں روانہ کیا گیا تھا۔ تب سے وہ سورج کے اس کورونا کے انتہائی قریب سفر کر رہا ہے جو سورج کے گرد ہالہ بنائے ہوئے ہے اور جسے مکمل سورج گرہن کے وقت دیکھا بھی جا سکتا ہے۔
سورج کا کورونا اس کے اردگرد کی وہ فضا ہے جس میں شدید درجہ حرارت پر آئیو نائیذڈ گیس موجود ہے جسے پلازما کہتے ہیں۔ سورج کی روشنی میں اسے دیکھنا ممکن نہیں اس لیے خاص آلات کی مدد سے مکمل سورج گرہن کے وقت اس کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
منگل کے روز امریکی خلائی جہاز پارکرکو سورج کی سطح سے صرف 3.8 ملین میل کے فاصلے پر آنا ہے جو کسی بھی خلائی جہاز کے مقابلے میں سورج کے سات گنا قریب پہنچنے کا ایک ریکارڈ ہو گا کیونکہ اس سے پہلے کوئی خلائی جہاز سورج کے اتنے قریب نہیں آ سکا۔
اس مشن کے منتظمین کہتے ہیں کہ انہیں کئی روز تک یہ علم نہیں ہو پائے گا کہ پارکر کی حالت اس کے بعد کیا ہو گی کیونکہ خلائی جہاز رابطے کی حد سے دور ہو گا۔
پارکر کو اس مشن کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا ہے اور یہ 2500ڈگری فارن ہائیٹ یا 1371 ڈگری سیلسئیس تک حرارت برداشت کر سکتا ہے۔
سورج کے اتنے قریب فاصلے پر پارکر کی پرواز فوراً ختم نہیں ہو گی بلکہ وہ ستمبر کے مہینے تک اسی فاصلے پر سورج کے گرد پرواز کرتا رہے گا۔
سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہ اس خلائی جہاز کے ذریعے یہ معلوم کر سکیں گے کہ سورج کے کورونا میں اتنی تپش کیوں ہے کہ اس کا درجہ حرارت سورج کے مقابلے میں سینکڑوں درجے زیادہ ہے۔ اور کیا وجہ ہے کہ سولر ونڈ جو آواز سے زیادہ تیز رفتار چارجڈ ذرات ہیں، مستقل سورج سے دور جانے کا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں۔
سورج سے اٹھنے والی یہ گرم لہریں سائنس دانوں کے مطابق زمین پر زندگی ممکن بناتی ہیں۔ لیکن سورج سے اٹھنے والے بعض طوفان عارضی طور پر مواصلاتی اور بجلی کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں۔
سورج اپنے گیارہ سال کے چکر کے حتمی مرحلے میں ہے اور اس کی وجہ سے غیر متوقع طور پر افق پر، مختلف مقامات پر بے شمار رنگ بکھرے نظر آتے ہیں۔
ناسا کے جو ویسٹ لیک کہتے ہیں، “سورج ہمارا سب سے قریبی اور مہربان ہمسایہ ہے مگر بعض اوقات تھوڑا ناراض ہو جاتا ہے۔”
(اس خبر میں معلومات اے پی سے لی گئی ہیں)