|
مشرقی جرمنی کے شہر میگڈے برگ میں جمعہ کے روز ایک مصروف کرسمس مارکیٹ میں ایک شخص نے کار لوگوں پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ 60 لوگوں کے زخمی ہو نے کی اطلاعات ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک مشتبہ حملہ تھا۔
ایسو سی ایٹڈ پریس نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے نامعلوم سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ کار کے ڈرائیور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اے پی نے علاقے کی وزیر داخلہ تمارا تیشانگ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ حملہ آور پچاس سالہ سعودی ڈاکٹر ہے جو 2006 میں جرمنی آیا تھا۔
سیکسنی انہالٹ علاقے کے گورنر رائنر ہیسلوف نے کہا کہ حملہ آور تنہا تھا اور شہر میگڈے برگ کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے۔
شہر میگڈے برگ کی ویب سائٹ کے مطابق زخمیوں میں سے 15 کو شدید زخم آئے ہیں۔
علاقے کی حکومت کے ترجمان میتھیاس شوپے اور شہر کے ترجمان مائیکل ریف نے کہا کہ انہیں شبہ ہے کہ یہ گاڑی جان بوجھ کر مارکیٹ پر چڑھائی گئی۔
ترجمان ریف نے کہا،”تصاویر خوفناک ہیں۔”
انہوں نے بتایا،” میری معلومات یہ ہیں کہ ایک کار کرسمس مارکیٹ میں گھس گئی ، لیکن میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس سمت سے اور کتنی دور سے۔”
اس موقع پر امدادی کارکنوں کوسائرن کی آوازیں سنائی دیں جبکہ تعطیلات کی سجاوٹ مارکیٹ میں آویزاں تھی۔
مارکیٹ کے گھیرے میں لیے گئے حصے کی فوٹیج میں زمین پر ملبہ دیکھا جا سکتا ہے۔
سیکسنی انہالٹ علاقے کے گورنر رائنر ہیسلوف نے کہا، “یہ ایک خوفناک واقعہ ہے، خاص طور پر کرسمس سے پہلے کے دنوں میں۔‘‘
گورنر نے ڈی پی اے کو بتایا کہ وہ فوری طور پر متاثرین یا اس بارے میں کہ اس واقعہ کے پیچھے کون ہے کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
جرمن چانسلر اولاف شولز نے ایکس پلیٹ فارم پر پوسٹ کیا: “میری ہمدردیاں متاثرین اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ ہم ان کے ساتھ اور میگڈے برگ کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
برلن کے مغرب میں واقع 240,000 کی آبادی کا شہر میگڈے برگ سیکسنی انہالٹ کا دارالحکومت ہے۔
خیال رہے کہ یہ مشتبہ حملہ برلن میں کرسمس مارکیٹ پر 19 دسمبر 2016 کو حملے کے آٹھ سال بعد ہوا ہے۔ اس حملے میں ایک مسلمان انتہا پسند نے کرسمس کے موقع پر ایک ٹرک گھسا کر 13 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا تھا۔
حملہ آور چند روز بعد اٹلی میں فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا تھا۔
جرمنی میں کرسمس کے بازار جرمن ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں کیونکہ قرون وسطی کے بعد سے اسے ایک سالانہ تعطیل کی روایت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جرمنی سے یہ روایت مغربی دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیلی تھی۔
صرف برلن میں ہی گزشتہ ماہ کے آخر میں 100 سے زیادہ مارکیٹیں کھلیں جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی مارکیٹیں لگائی جاتی ہیں۔
ملک کی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے پچھلے ماہ کے آخر میں کہا تھا کہ کرسمس مارکیٹوں کو اس سال خطرے کا کوئی ٹھوس اشارہ نہیں ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا تھا ہوشیار رہنا عقلمندی کی بات ہوگی۔
(اس خبر میں شامل معلومات اے پی س لی گئی ہیں)