|
پشاور — خیبرپختونخوا کی حکومت نے ضلع کرم میں امن بحال کرنے کے لیے متحاب گروپوں سے مورچے خالی کرانے اور اسلحہ تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ پشاور میں وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی زیرِ صدارت ہونے والے صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی، کور کمانڈر پشاور اور آئی جی خیبرپختونخوا پولیس نے بھی شرکت کی۔
ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ضلع کرم میں موجود تمام بنکرز کو ختم کرنے کے علاوہ لوگوں سے غیر قانونی اسلحہ واپس لینے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ علاقے میں امن و امان کی بحالی پہلی ترجیح ہے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومت کا تشکیل کردہ جرگہ قبائل میں مصالحت کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 130 تک پہنچ گئی تھی۔
ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال تاحال معمول پر نہیں آ سکی ہے اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔
اعلامیے میں کیا ہے؟
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ضلع کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے طویل مشاورت کے بعد لائحہ عمل کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔
اجلاس میں کرم میں فریقین سے اسلحہ جمع کرنے کا متفقہ فیصلہ ہوا جس کے لیے فریقین حکومت کی ثالثی میں ایک معاہدے پر دستخط کریں گے۔
معاہدے میں رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرانے کے لیے دونوں فریق 15 دنوں میں لائحہ عمل دیں گے یہ بھی طے ہوا کہ یکم فروری تک تمام اسلحہ انتظامیہ کے پاس جمع کیا جائے گا اور یکم فروری تک علاقے میں قائم تمام بنکر مسمار کیے جائیں گے۔
اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اس دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاقے کا زمینی راستہ وقفے وقفے سے عارضی طور پر کھول دیا جائے گا۔ تمام زمینی راستے پر آمدورفت کو محفوظ بنانے کے لیے سیکیورٹی میکنزم ترتیب دیا گیا۔ پولیس اور ایف سی قافلوں کو مشترکہ طور پر سیکیورٹی فراہم کریں گے۔
علاقے میں آمدورفت کے مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی بنیادوں پر خصوصی فضائی شروع کی جائے گی جس کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیلی کاپٹر فراہم کریں گی۔
فریقین زمینی راستے کو ہر وقت کھلا رکھنے کے لیے کسی بھی پرتشدد کارروائی سے اجتناب کریں گے ورنہ انتظامیہ راستے کو دوبارہ بند کرنے پر مجبور ہو گی۔
علاقے میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بند کیا جائے گا۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ کرم کا مسئلہ صرف علاقائی نہیں بلکہ ایک قومی اور سنجیدہ مسئلہ ہے، اس مسئلے پر کسی کو اپنی سیاست چمکانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
مسئلے پر بعض سیاسی قائدین کی طرف سے سیاسی بیانات کو قابلِ افسوس قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کرم کے مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور تمام متعلقہ ادارے ایک ہی پیج پر ہیں۔
اجلاس میں کرم میں بچوں کی اموات کو غلط رنگ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
خیال رہے کہ کرم میں ادویات کی قلت کی وجہ سے دو ماہ کے دوران 29 بچوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ تاہم خیبرپختونخوا حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔
پاڑہ چنار میں احتجاج
کئی برسوں سے جاری پرتشدد فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ ضلع کرم کے مرکزی انتظامی شہر پاڑہ چنار میں راستوں کی بندش کے خلاف جمعے کو بھی احتجاج ہوا۔
احتجاج میں سول سوسائٹی تنظیموں سے منسلک افراد نے شرکت کی اور اس دوران شہر اور ملحقہ دیہات کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بھی بند رہے۔
کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار کو پشاور اور کوہاٹ سے ملانے والی شاہراہ اکتوبر کے وسط سے ہر قسم کی آمدورفت اور تجارت کے لیے بند ہے۔
سڑکوں کی بندش کے نتیجے میں اپر اور وسطی کرم کے طول و عرض میں خوردنی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
پاڑہ چنار سے رُکن قومی اسمبلی حمید حسین کہتے ہیں کہ بے امنی اور راستوں کی بندش سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہو گیا ہے۔
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ قیامِ امن کے لیے کوہاٹ میں جاری گرینڈ جرگے میں جلد حتمی فیصلہ متوقع ہے۔