|
اکتوبر میں وسطی کیلی فورنیا کے ایک اسکول کی ٹیچر سنینگ اپنی کلاس میں داخل ہوئیں تو انہیں وہاں ایک چمگادڑ دکھائی دی۔ باہر نکالنے کی کوشش کے دوران چمگادڑ نے سنینگ کو کاٹ لیا۔ چند ہفتوں کے بعد ان میں ریبیز کی علامتیں ظاہر ہوئیں اور پھر چند دنوں میں یہ مرض ان کی جان لے گیا۔
ریبیز کو ہمارے ہاں عموماً ’ہلکا پن‘ کہا جاتا ہے اور اس مرض کو باولے کتے کے کاٹنے سے جوڑا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریبیز صرف کتے کے کاٹنے سے ہی نہیں بلکہ کئی اور جانوروں کے کاٹنے اور رابطے میں آنے سے بھی ہو جاتا ہے۔ جن میں چمگادڑ، لومڑی، ریکون اور اسکنک شامل ہیں۔
ریکون گلہری سے متشابہ ایک جانور ہے جو زیادہ تر درختوں پر رہتا ہے جب کہ اسکنک رینگنے والا ایک انتہائی بدبودار جانور ہے۔ یہ دونوں جانور زیادہ تر شمالی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔
تاہم ریبیز صرف انہی جنگلی جانوروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالتو جانور اور گھریلو مویشی بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور جب یہ جانور انسان سے رابطے میں آتے ہیں تو ریبیز کا وائرس انسان کو منتقل ہو جاتے ہے۔
ریبیز کا وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں ہوتا ہے۔ اس لیے وہ جسے بھی کاٹتا ہے، وائرس اس میں منتقل ہو جاتا ہے۔
بلی کے ریبیز میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے پالتو بلی اور کتے کو اس مرض سے بچاؤ کے انجکشن ضرور لگوانے چاہیئں۔
امریکہ میں ریبیز عموماً چمگادر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، تاہم اس کی تعداد بہت کم ہے۔ اس ملک میں ریبیز سے ہلاکتوں کی سالانہ تعداد 10 سے کم ہے۔
ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں ریبیز زیادہ تر کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔
آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 2000 سے 5000 افراد ریبیز کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں 99 فی صد واقعات میں ریبیز کا سبب کتے کا کاٹنا ہے۔
امراض سے بچاؤ اور کنٹرول کے امریکی ادارے سی ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 55000 افراد ریبیز کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے 31000 کا تعلق عمومی طور پر ایشیائی ممالک سے ہوتا ہے۔
ریبیز ایک انتہائی ہلاکت خیز مرض ہے جس میں مبتلا ہونے والے کی ہلاکت تقریباً یقینی ہوتی ہے۔
ریبیز کی علامتیں
جب کوئی جانور ریبیز میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی حرکات و سکنات اور رویے میں نمایاں تبدیلیاں آ جاتی ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ریبیز کا شکار ہو چکا ہے۔ متاثرہ جانور وحشی ہو جاتا ہے اور ہر کسی کو کاٹ کھانے کو لپکتا ہے۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور تشنج جیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ بعض متاثرہ جانور فالج زدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے حلق سے عجیب طرح کی آوازیں نکالتا ہے اور اس کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔
ریبیز میں مبتلا ہونے کے ایک ہفتے کے اندر متاثرہ جانور مر جاتا ہے۔
ریبیز انسان کو کس طرح منتقل ہوتا ہے
ریبیز کا وائرس متاثرہ جانور کے کاٹنے سے ہی نہیں بلکہ اس کا لعاب جسم پر کسی زخم پر لگنے، یا آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے بھی انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
انسان میں ریبیز کی علامتیں کب ظاہر ہوتی ہیں
ریبیز کا وائرس انسان میں منتقل ہونے کے بعد علامتیں ظاہر ہونے میں عموماً دو سے تین مہینے لگتے ہیں۔ لیکن بعض صورتوں میں علامتیں ایک ہفتے کے اندر بھی ظاہر ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھار اس میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔
چونکہ اس مرض کے ظاہر ہونے کا دورانیہ لمبے عرصے پر پھیلا ہوا ہے، اس لیے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ جانور سے رابطے میں آنے کے بعد فوراً ڈاکٹر کے پاس جانا اور ریبیز سے بچاؤ کا علاج کرانا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ علامتیں ظاہر ہونے کے بعد مریض کا بچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
انسان میں ریبیز کی علامتیں
ریبیز میں مبتلا ہونے والے انسان کی ابتدائی علامتیں فلو سے ملتی جلتی ہوتی ہیں اور کئی دنوں تک برقرار رہتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اس میں دیگر علامتیں بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں جن میں بخار، سر درد، قے، جی کا متلانا، مزاج میں اشتعال انگیزی کا پیدا ہونا، منہ سے لعاب کا بہنا، نگلنے میں دشواری جس کی وجہ سے پانی سے خوف آنا شامل ہیں۔
احتیاطیں
اگر آپ کو کوئی جانور کاٹ لے یا اس کا لعاب کی آنکھ، ناک یا منہ کو لگ جائے یا اگر جسم پر کوئی زخم وغیرہ ہے، اسے چھو جائے تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں۔
اگر آپ کسی ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں چمگادڑیں بھی ہیں تو بہت محتاط رہیں کیونکہ چمگادڑ سوتے میں بھی کاٹ لیتا ہے اور بعض اوقات تو اس کے کاٹنے کا پتہ تک نہیں چلتا، خاص طور پر اگر متاثرہ فرد معذور یا چھوٹا بچہ ہو۔