|
اسلام آباد — پاکستان کی وزارتِ خزانہ نے اعتراف کیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی بعض شرائط پوری نہیں ہو سکیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی کڑی شرائط پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی ایک قسط وصول کر چکا ہے۔
رواں سال کے اوائل میں دوسری قسط وصول کرنے سے قبل حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی سات صفحات پر مشتمل کڑی شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔
آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے بیشتر پر عمل درآمد جاری ہے تاہم کئی شرائط تاحال پوری نہیں ہو سکی ہیں۔ وفاقی حکومت کو بیشتر شرائط پر جنوری، فروری 2025 سے قبل عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ جب کہ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط جون 2025 تک پوری کرنا ہوں گی۔
پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو وزارتِ خزانہ کی جانب سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران صحت اور تعلیم پر 685 ارب روپے خرچ کرنے کی شرط پوری نہیں کی جا سکی ہے۔ جب کہ ایف بی آر نے پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس ہدف سے 89 ارب روپے کم وصول کیے ہیں۔
یاد رہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران ٹیکس ٹارگٹ حاصل نہ ہونے پر آئی ایم ایف وفد پاکستان کا دورہ کر چکا ہے جس دوران وزیرِ خزانہ اور دیگر حکام سے سے ملاقاتیں ہوئی اور حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو اگلے جائزے سے قبل رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط
وزارتِ خزانہ کے تحریری دستاویز کے مطابق 40 شرائط میں سے 22 اسٹرکچرل بینچ مارک پر جون 2025 کے اختتام تک عمل درآمد کی شرط طے کی گئی ہے۔
بینچ مارک میں سے 18 وفاق سے متعلق جب کہ چار مرکزی بینک سے متعلق ہیں۔
رواں مالی سال کے جون تک حکومت کو ٹیکس نیٹ میں ساڑھے چار لاکھ نئے ٹیکس فائلرز کو شامل کرنا ہو گا۔
بینظر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کیش ٹرانسفر کے لیے 599 ارب جاری کرنا ہوں گے۔ فارن ریزروز کو مارچ کے آخر تک 10 ارب 20 کروڑ ڈالرز کی حد تک رکھنا ہو گا۔
کوئی ٹیکس استثناٰ یا کسی کو زیرو ریٹنگ کی سہولت نہیں دی جا سکے گی۔ بجٹ میں منظور اخراجات سے زائد کوئی بھی اخراجات پارلیمنٹ سے قبل از وقت منظوری کے سوا نہیں کیے جا سکیں گے۔
ہر صوبے کو اکتوبر 2024 کے آخر تک چھوٹے کسانوں کی زرعی آمدن پر انکم ٹیکس اور تجارتی زراعت کے لیے وفاقی کارپوریٹ ٹیکس کے لیے قانون سازی مکمل کرنا ہو گی اور زرعی انکم ٹیکس یکم جنوری 2025 سے وصول کیا جائے گا۔
جنوری 2025 تک بجلی فراہم کرنے والی دو کمپنیز کی نجکاری کا پلان تیار کرنا ہو گا اور گیس شعبے سے کیپٹو پاور کے استعمال کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ فروری میں گیس ٹیرف ایڈجسٹمنٹ نوٹی فکیشن جاری کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت وفاقی منصوبہ بندی وزارت جنوری 2025 تک ایک ویب سائٹ بنائے گی جہاں منصوبہ جات کے انتخاب کے معیار، اسکور کارڈ، منصوبوں کے حجم اور سالانہ حد کی تفصیلات شائع کی جائیں گی۔
فروری کے آخر تک اعلٰی سرکاری افسروں اور ان کے فیملی ممبرز کے اثاثے ڈکلیئر کرنا ہوں گے۔
وفاقی حکومت شرائط کے تحت گورننس اور کرپشن سے متعلق رپورٹ جاری کرنے کی پابند ہو گی۔
مارچ 2025 تک زرِمبادلہ ذخائر تین ماہ کے درآمدی بل کے برابر لانے اور پبلک فنانس، رائٹ سائزنگ، محصولات ہدف کے مطابق پورے کرنا ہوں گے، اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ایکسچینج ریٹ میں 1.25 فی صد سے زیادہ فرق نہیں ہو گا۔
کرنسی سوئپ کا حجم 2.75 ارب ڈالر سے زائد نہ ہونا بھی شرائط میں شامل ہے، شرائط کے تحت حکومت مرکزی بینک سے کوئی قرضہ نہیں لے گی۔ ایف بی آر کو رواں مالی سال کے دوران 12 ہزار 913 ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر وزارتِ خزانہ اور وزیرِ خزانہ کا مؤقف
منگل کو وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر روانی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ اہداف پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قریبی مشاورت سے 37 ماہ پر محیط پروگرام کو کامیابی سے مکمل کیا جائے گا۔
وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد میں نام نہاد ‘مشکلات’ کے حوالے سے قیاس آرائیاں حقائق سے برعکس ہیں۔
پیر کو قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے اہداف حاصل کرنا ہوں گے۔ معاشی اور توانائی کی اصلاحات پر عمل درآمد کر کے دکھانا ہو گا۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات کا تجربہ رکھنے والے ایک سابق وفاقی سیکریٹری خزانہ نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آئی ایم ایف کی بعض شرائط پر وقت پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ توانائی کے شعبے میں ریفارمز اور نجکاری کا عمل آسان نہیں ہے، اس میں بہت مسائل موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 40 فی صد تک اضافہ کرایا گیا۔ ٹیکس وصولیوں کے ہدف کی محصولات میں مسائل رہیں گے۔ تاہم شرح سود میں کمی کے بعد بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی رقم کم ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں زرعی ٹیکس لگانے کے حوالے سے جو کام پنجاب میں ہو رہا ہے، اُمید ہے کہ سندھ بھی اس کی پیروی کرے گا۔
معاشی اُمور کے ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کا آئندہ جائزہ آسانی سے پورا کر لے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو قرضے کی دوسری قسط مل جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی اعشاریے بہتر ہیں اور مہنگائی ہدف سے نیچے جب کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سرپلس ہے۔ جب کہ ایکسچینج ریٹ بھی بہتر سطح پر ہے۔
فرحان محمود کہتے ہیں کہ جو اہداف حاصل نہیں ہو پاتے، ان کی ٹائم لائن تبدیل کی جا سکتی ہے۔ تاہم ادارہ جاتی ریفارمز میں پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
معاشی امور کے ماہر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس مالی سال میں بیرونی ضروریات کے لیے 18 سے 20 ارب ڈالرز کی ضرورت ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دوست ممالک کی جانب سے رکھوائے ڈپازٹس بھی واپس کرنا ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایک سال کے لیے نہیں آئندہ تین برسوں کے لیے 12 ارب ڈالرز کے ڈپازٹ کی ری پروفائلنگ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔