|
ویب ڈیسک — افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں کے نفاذ میں مصروف ہیں۔ طالبان نے پیر کو دو صوبوں میں 20 مردوں اور خواتین کو مختلف الزامات میں عوامی اجتماع میں کوڑے مارے ہیں۔
جن افراد کو سرِ عام سزا دی گئی اُن پر زنا، عصمت دری اور ناجائز یا غیر فطری تعلقات قائم کرنے کے الزامات تھے۔
افغان طالبان کی سپریم کورٹ کے مطابق تمام مجرموں کو 39، 39 کوڑوں کی سزا دی گئی ہے جب کہ ان افراد کو ایک سے سات برس کے درمیان قید کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
ان افراد کی سزاؤں پر دو صوبوں خوست اور پروان میں عمل در آمد کیا گیا ہے۔ جب ان مرد و خواتین کو کوڑوں کی سزا دی جا رہی تھی تو یہ منظر دیکھنے کے لیے مقامی آبادی، عدلیہ اور طالبان حکومت کے عہدیداران موجود تھے۔
طالبان نے 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سینکڑوں مردوں اور خواتین کو عوامی طور پر کوڑے مارنے کی سزا دی ہے جن میں زیادہ تر افراد پر زنا، بھاگ کر شادی کرنے، ناجائز تعلقات، چوری یا ڈکیتی جیسے جرائم کے الزامات تھے۔
افغان طالبان کی اعلیٰ عدالت کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صرف فروری کے مہینے میں اب تک 86 شہریوں کو دی گئی کوڑوں کی سزا پر عمل ہوا ہے جن میں 17 خواتین بھی شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان کی شہریوں کو جسمانی ایذا پہنچانے والی سزا کی مذمت کی ہے اور اس طرح کی سزاؤں کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی وقار کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان سے اس عمل کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان اپنی حکومت کے نظامِ انصاف اور مجموعی طرزِ حکمرانی کا دفاع کرتے ہیں۔ طالبان کہتے ہیں کہ ان کی لاگو کردہ سزائیں اسلامی قوانین یا شریعت کے مطابق ہیں۔ وہ ان سزاؤں کے عمل درآمد پر تنقید کو غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ اگست 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افراد کے انخلا کے ساتھ ہی طالبان کابل سمیت ملک بھر پر قابض ہو گئے تھے اور اس کے بعد انہوں نے وہاں عبوری حکومت قائم کی تھی۔
طالبان کی عبوری حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
طالبان نے خواتین کی تعلیم اور روزگار تک رسائی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس سے وہ عوامی زندگی سے مکمل طور پر دور ہو گئی ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے طالبان کے خواتین کے حوالے اسے اقدامات کو ’جنسی امتیاز‘قرار دیا ہے۔ طالبان کی خواتین پر عائد ان پابندیوں کو ختم کرنے کے مسلسل مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سےلی گئی ہیں۔