یوٹیوب پر بغیر حجاب آن لائن پرفارم کرنے والی ایرانی گلوکارہ گرفتار

یوٹیوب پر بغیر حجاب آن لائن پرفارم کرنے والی ایرانی گلوکارہ گرفتار Leave a comment

  • ایرانی فن کارہ پرستو احمدی کے وکیل کے مطابق گلوکارہ کے خلاف جمعرات کو مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
  • تاحال یہ نہیں معلوم کہ پرستو احمدی پر کیا الزامات عائد ہیں، کس نے گرفتار کیا اور کہاں رکھا گیا ہے: وکیل
  • گلوکارہ نے یوٹیوب پر ایک آن لائن کانسرٹ کیا تھا جس میں ان کے ساتھ چار مرد موسیقار بھی شریک تھے۔
  • پرستو کی آن لائن پرفارمنس کو یوٹیوب پر 14 لاکھ بار دیکھا گیا ہے۔

ویب ڈیسک— ایران میں حکام نے یوٹیوب پر ایک ورچوئل کانسرٹ کرنے والی گلوکارہ کو گرفتار کر لیا ہے۔

گلوکارہ کے وکیل کے میلاد پناہی پور نے بتایا ہے کہ حکام نے 27 سالہ پرستو احمدی کو ہفتے کے روز شمالی صوبے مازندران کے دارالحکومت ساری سے گرفتار کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعرات کو پرستو احمدی کے خلاف ان کے کانسرٹ میں فن کے مظاہرے پر ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں انہوں نے بغیر کالر اور آستینوں کا ایک لمبا لباس پہنا ہوا تھا۔ لیکن ان کے سر پر حجاب نہیں تھا۔

اس ورچوئل کانسرٹ میں ان کے ساتھ دیگر چار مرد گلوکار بھی شریک تھے۔

پرستو احمدی نے یوٹیوپ پر اپنے کانسرٹ سے ایک دن پہلے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ ’’میں پرستو ہوں۔ میں ایک لڑکی ہوں جو لوگوں کی محبت کے لیے گانا چاہتی ہوں۔ اس دھرتی کے لیے گانا میرا حق ہے اور میں اس حق کو فراموش نہیں کرسکتی۔‘‘

یوٹیوب پر اس آن لائن کانسرٹ کو 14 لاکھ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے۔

پرستو کے وکیل پناہ پور نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’’بدقسمتی سے ہم پرستو احمدی کے خلاف عائد الزامات کے بارے میں نہیں جانتے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ انہیں کس نے گرفتار کیا یا انہیں کس جگہ حراست میں رکھا گیا ہے۔ لیکن ہم اس معاملے کو قانون کے حکام کے سامنے اٹھائیں گے۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ احمدی کے بینڈ میں شامل موسیقاروں، سہیل فقیہ ناصری اور احسن بیرقدر کو بھی ہفتے کے روز تہران سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔

ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کے گانے پر کئی پابندیاں عائد ہیں۔

خواتین کو مخلوط حاضرین و سامعین کے سامنے اکیلے گانے یا رقص کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

خواتین صداکاروں کو صرف مرد حاضرین کے سامنے کورس میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ تاہم وہ ایسے ہالز میں گا سکتی ہیں جہاں حاضرین میں صرف خواتین شامل ہوں۔

ایران میں نافذ اسلامی قوانین کے مطابق خواتین کو مردوں اور نامحرم افراد کے سامنے بغیر سر ڈھاپنے آنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔

ان قوانین کی خلاف ورزی پر حکام کی جانب سے اکثر کارروائی کی جاتی ہے۔

سال 2022 میں حجاب کی مبینہ خلاف ورزی پر ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد 22 سالہ مہیسا امینی کی موت ہوئی تھی جس کے بعد ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے۔

اس احتجاجی لہر کے بعد پولیس حجاب کی خلاف ورزی پر کارروائی سے ہچکچانے لگی تھی۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں حکام کا رویہ ایک بار پھر تبدیل ہوا ہے۔

اس خبر کی تفصیلات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply