ڈرامہ سیریل تیرے بن، بختاور اور اس پیار کے صدقے سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ یمنیٰ زیدی کی ڈیبیو فلم ‘نایاب’ سنیما گھروں میں ریلیز کر دی گئی ہے۔
فلم میں مرکزی کردار یمنیٰ زیدی نے ادا کیا ہے جب کہ تھیٹر اداکار فواد خان نے ان کے بھائی، سینئر اداکار جاوید شیخ نے والد اور ہما نواب نے والدہ کا کردار نبھایا ہے۔
فلم کی کہانی کراچی کی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جسے کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے والد اس کے حق میں نہیں ہوتے۔
اداکارہ یمنیٰ زیدی اور فواد خان نے اپنی اداکاری سے ‘نایاب’ کو نایاب بنانے کی بھرپور کوشش کی لیکن کہانی میں جھول، کرکٹ سین فلمانے میں جلد بازی کا مظاہرہ اور دیگر معاملات پروڈیوسر کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
عمیر ناصر علی کی ہدایات میں بننے والی فلم کا دورانیہ ڈھائی گھنٹے ہے۔
فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسے بڑے پردے سے زیادہ ‘نیٹ فلکس’ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ ہر کردار کو برابر وقت دیا گیا ہے اور اسی وجہ سے اس میں کئی مسائل نظر آئے ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں کرکٹ کے موضوع پر کوئی فلم بنی ہو۔ اس سے قبل 2013 میں ہمایوں سعید نے اسپورٹس فلم ‘میں ہوں شاہد آفریدی’ بنائی تھی۔ لیکن اس میں بھی کرکٹ کے سین متاثر کن انداز میں نہیں فلمائے گئے تھے اور ایسا ہی کچھ ‘نایاب’ میں بھی ہوا ہے۔
نایاب کی کہانی کیا ہے؟
کرکٹ سے محبت کرنے والی نایاب (یمنیٰ زیدی) کا خواب ہوتا ہے کہ وہ گرین شرٹس کی نمائندگی کرتے ہوئے بھارت کو شکست دے، لیکن اس کے والد (جاوید شیخ) اسے اور اس کے بھائی اکبر (فواد خان) کو بیرون ملک بھیجنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
ایسے میں نایاب اپنے بھائی کی مدد سے کرکٹ کھیلنا شروع کرتی ہے۔ والد کی مخالفت کے باوجود وہ اپنی محنت اور لگن سے اکیڈمی لیول تک پہنچ جاتی ہے جہاں کرپشن دیکھ کر اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
اس کے بعد نایاب کا بھائی جو انڈر 19 کرکٹر بھی رہ چکا ہوتا ہے وہ اسے سمجھاتا ہے اور واپس کرکٹ کی طرف لاتا ہے جہاں سے نایاب پاکستان ویمنز ٹیم میں جگہ بنا کر اپنا خواب پورا کرتی ہے۔
اس فلم میں نہ صرف ویمن کرکٹرز کو پیش آنے والی مشکلات کو بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اگر انسان محنت کرے تو سب کچھ حاصل کرسکتا ہے۔
البتہ اس فلم میں مصنفین اور ہدایت کار نے کرکٹ سے زیادہ توجہ نایاب کے بھائی اکبر کی ذمہ داریوں، اس کی بیوی کی پریشاینوں، ان کے والد کی مسلسل بچوں کو ملک سے باہر بھیجنے کی کوششوں، نایاب کے رومانس اور کراچی کے خراب حالات پر دی ہے جس کی وجہ سے فلم کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔
اگر فلم کو صرف کرکٹ تک ہی محدود رکھا جاتا تو اس کا دورانیہ بھی کم ہوتا اور شائقین کی توجہ بھی صرف ایک ہی موضوع پر رہتی۔
نایاب کے اہم پہلو کیا ہیں؟
فلم میں یمنیٰ زیدی نے کرکٹ اور دیگر سین میں اپنی اداکاری سے جان ڈالی ہے۔ اسکرین پر ان کے اور بڑے بھائی کا کردار نبھانے والے فواد خان کے سین سب سے زیادہ جان دار ہیں۔
فلم کا سرپرائز پیکج فواد خان ہیں جو تھیٹر اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر اپنا نام بنا چکے ہیں۔ لیکن فلموں میں انہیں مرکزی کردار کم ہی ملے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فلم کی کہانی ان کے کردار کے گرد ہی گھومتی ہے اور انہی کی وجہ سے نایاب آگے بڑھنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
فلم کے آغاز سے لے کر اختتام تک جاوید شیخ کے کردار کو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے دکھایا گیا ہے۔ فلم کے آخر میں جا کر جب وہ ایسا کرنے کی وجہ بتاتے ہیں تو اپنی اداکاری سے شائقین کو کافی متاثر کرتے ہیں۔
نایاب کی والدہ کا کردار ادا کرنے والی ہما نواب کو فلم میں زیادہ کچھ کرتے نہیں دکھایا گیا لیکن اکبر کی بیوی اور نایاب کی بھابی کا کردار ادا کرنے والی نورین گلوانی نے اچھی اداکاری کی ہے۔
فلم میں مرکزی ہیرو کا کردار اسامہ خان نے نبھایا ہے لیکن ویمن اسپورٹس کے گرد گھومنے والی فلم میں ان کے پاس زیادہ کچھ کرنے کا مارجن نہیں تھا۔ سینئر اداکار عدنان صدیقی نے فلم میں بطور مہمان اداکار کام کیا ہے اور اپنے مختصر سے کردار میں منجھی ہوئی اداکاری کی ہے۔
تھیٹر سے سامنے آنے والے کئی اداکاروں کو اس فلم میں موقع دیا گیا ہے جس میں اکبر اسلام اور سنیل شنکر قابلِ ذکر ہیں۔
فلم میں اداکار احتشام الدین کو کرپٹ افسر کے روپ میں دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے اس کردار کو بخوبی نبھایا ہے اور دیکھنے والوں کے لیے اس کردار کو ناپسندیدہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
نایاب کی کہانی علی عباس نقوی اور باسط نقوی نے لکھی ہے جو اس سے قبل ‘لال کبوتر’ جیسی ایوارڈ وننگ فلم لکھ چکے ہیں۔
تاہم پانچ سال قبل آنے والی فلم کی طرح اس بار بھی انہوں نے کراچی کو کہانی میں ایک کردار کے طور پر استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے اس شہر سے باہر ان حالات کو سمجھا جانا مشکل لگتا ہے۔
فلم کا آغاز ایسے سین سے کیا گیا ہے جس کا دور دور تک کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سین میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ماضی میں کراچی کو دہشت گردوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔
نایاب کو فلم کے آغاز میں ایک اسکول یا کالج کی طالبہ دکھایا گیا لیکن چند سین کے بعد وہ یا تو فارغ التحصیل ہوگئی یا پھر اس نے پڑھائی ترک کردی۔ ٹیچر کے ساتھ کرکٹ پر گفتگو کو بھی پڑھائی کی طرح بے ربط انداز میں ختم کر دیا گیا۔
کہانی میں ڈرامائی پہلو ڈالنے کے لیے ایسے عوامل کو شامل کیا گیا جو عموماً ٹی وی پر نظر آتے ہیں جیسے نایاب کی بھابی کا سسر سے جھگڑا، بہن کی آمد پر بھابی کا احتجاج وغیرہ۔
فلم میں استعمال ہونے والی لوکیشن کافی متاثر کن ہیں جب کہ فیشن کا انتخاب بھی معیاری ہے۔
تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہدایت کار کو اسکرپٹ پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ فلم میں ایک سین ایسا بھی دکھایا گیا ہے جس میں نایاب ہاتھ میں فون پکڑے دوسرے کے فون پر میچ دیکھ رہی ہے۔
فلم میں ایک سین ایسا لگا جیسے اسے زبردستی شامل کیا گیا تھا۔ وہ سین فلم کے اہم کردار کے ساتھ پیش آنے والا حادثہ تھا۔ اس ڈیولپمنٹ کا پلاٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس کے بغیر بھی کام چلایا جاسکتا تھا۔
کرکٹ شاٹس میں بہتری کی گنجائش
کرکٹ پر بننے والی دیگر فلموں میں اگر پڑوسی ملک بھارت میں بننے والی اسپورٹس فلموں کو دیکھا جائے تو اس میں اداکاروں نے ایسے کرکٹ کھیلی جیسے وہ پروفیشنل کرکٹر ہوں۔
اظہرالدین پر بننے والی بائیوپک میں عمران ہاشمی نے سابق بھارتی کپتان کی طرح شاٹ مارے۔ ایم ایس دھونی کی فلم میں سشانت سنگھ راجپوت نے ایسی جان ڈالی کی آج بھی بہت سے شائقین کو یاد ہے۔
البتہ نایاب میں کراچی کے خراب حالات پر بات کرنا، بوری بند لاشوں کا ذکر کرنا اور نامعلوم افراد کی تخریب کاری دکھانا، کرکٹ سے توجہ ہٹاتا ہے۔
فلم میں ٹریننگ کیمپ اور اکیڈمی کے سین اگر زیادہ ہوتے تو اچھا ہوتا، چاہے اس کے لیے رومانس کی قربانی دینی پڑتی۔ اس وقت بھی جو شاٹس فلم میں ہیں انہیں بہتر انداز میں فلمایا جاسکتا تھا۔
کرکٹ کے گرد گھومنے والی فلم میں ایک بھی ایسا کرکٹ شاٹ نہیں جس میں کیمرہ اینگل بدلے بغیر بالر کو گیند کرتے یا بلے باز کو شاٹ مارتے دکھایا گیا ہو۔ یہ تمام شاٹ جلد بازی میں فلمائے گئے معلوم ہوئے۔
فلم میں اداکار شارق محمود کی بے کار کمنٹری جنہیں سن کر لگ رہا تھا کہ انہیں اسکرپٹ کے بغیر بولنے کی ہدایات ملی تھیں۔
فلم میں دکھایا گیا کہ کرکٹ کھیلنے والی خواتین سگریٹ پی سکتی ہیں، ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے جھوٹ بول کر رشوت کے پیسے منگوانا جائز ہے اور اچھا کھیل پیش نہ کرنے کے باوجود ٹیم میں سلیکشن کے لیے شور مچانا درست، جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔
کرکٹ دیکھنے اور سمجھنے والا ہر شخص اس بات کو نوٹ کرے گا کہ نایاب کو لیفٹ آرم فاسٹ بالر ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ متعدد کرکٹرز کے زخمی ہونے پر ٹیم میں جگہ ملی۔ اہم میچ میں بری بالنگ کے بعد اسے ڈراپ ہونا چاہیے تھا نہ کہ اگلے میچ میں سلیکٹ۔
فلم کے کلائمکس پر بھی مزید محنت کی جاسکتی تھی تاکہ جب فلم ختم ہوتی تو شائقین اچھے موڈ میں باہر آتے۔ لیکن آخری پانچ منٹ میں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے فلم ختم ہونے پر شائقین کنفیوژ ہوتے ہیں۔
‘نایاب’ پاکستانی سنیما میں ریلیز ہو چکی ہے اور دو فروری کو دنیا بھر میں ریلیز کی جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہدایت کار اس میں سے کئی غیر ضروری سین کاٹ دیں جس میںن لڑکیوں کا نائٹ میچ کا کہہ کر شہر بھر میں موٹر سائیکل اور گاڑیوں میں گھومنا، اسامہ خان کے پانی کے بزنس کا آئیڈیا اور ان کی والدہ کی زہر کھانے اور واپس بھارت جانے کی دھمکی وغیرہ شامل ہیں۔