کیا حکومت تحریکِ انصاف کا احتجاج روکنے میں ناکام رہی ہے؟

کیا حکومت تحریکِ انصاف کا احتجاج روکنے میں ناکام رہی ہے؟ Leave a comment

  • رکاوٹیں کھڑی کرنے اور کنٹینرز لگانے کے باوجود تحریکِ انصاف کا مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا ہے۔
  • حکومت محتاط ہے کہ کہیں بڑے پیمانے پر خون خرابہ نہ ہو جائے: تجزیہ کار احمد بلال محبوب
  • رکاوٹوں کے باوجود قافلوں کا اسلام آباد میں داخل ہونا بظاہر حکومت کی ناکامی ہے: تجزیہ کار مظہر عباس
  • حکومت کو اس نوعیت کے احتجاج پر جمہوری حکومت کی طرح ردِعمل دینا چاہیے: سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید

لاہور — پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا عمران خان کی رہائی کے لیے مارچ ڈی چوک پہنچ گیا ہے جہاں مظاہرین کی سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری ہے۔ رینجرز کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں بھی برسائی گئی ہیں۔

انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور کنٹینرز لگانے کے باوجود تحریکِ انصاف کا مارچ اسلام آباد میں داخل ہوا ہے جس پر بعض حلقے سوال اُٹھا رہے ہیں۔

وزیرِ داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انتظامیہ چاہتی تھی کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر کوئی تماشا نہ لگے لیکن شر پسندوں نے املاک کو نقصان پہنچایا۔ تاہم تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُن کا احتجاج پرامن ہے۔

عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیرِ اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں یہ قافلہ رکاوٹوں کے باوجود ڈی چوک تک کیسے پہنچ گیا؟ کیا حکومت کی حکمتِ عملی درست نہیں ہے؟ کیا فورسز کا استعمال درست انداز میں نہیں کیا جا رہا؟ یا اِس کی کوئی اور وجہ ہے؟

‘پی ٹی آئی کے ورکرز پرجوش ہیں’

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اگر ملکی آبادی کی ایک بڑی تعداد حکومت کے خلاف ہو جائے اور اتنی خلاف ہو جائے کہ وہ مرنے مارنے پر تیار ہو جائے تو کسی بھی حکومت کے لیے احتجاج کو روکنا آسان نہیں رہتا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان کی حامی ہے اور یہ پُرجوش بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے اور اُنہیں حکومتی وسائل بھی حاصل ہیں۔

اُن کے بقول ایسی صورت میں ایک ایسی حکومت جو نسبتاً کم مقبول ہو، اُس کے آپشنز کم ہو جاتے ہیں یعنی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ کسی جان کا نقصان ہو، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی کوئی ویڈیو بن جائے۔ اِس لیے حکومت بہت محتاط ہے۔

سابق انسپکٹر جنرل پولیس شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے اور حکومت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ احتجاج جمہوری معاشرے میں ہر کسی کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ حکومت کو اس نوعیت کے احتجاج پر جمہوری حکومت کی طرح ردِعمل دینا چاہیے۔

تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ احتجاج روکنے میں ناکامی ایک طرح سے حکومت کا ‘انٹیلی جینس فیلیئر’ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہو گئے ہیں، اس سے بڑی سیاسی ناکامی کیا ہو گی۔

کیا معاملے کا سیاسی حل نکل سکتا تھا؟

احمد بلال محبوب کے خیال میں عمران خان نے اِس سے قبل اتنی بڑی اور پرجوش احتجاج کی کال پہلے نہیں دی۔ ماضی کی تمام احتجاجی تحریکیں ایک محدود سے مقصد کے لیے تھیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جہاں تک بات ہے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان بات چیت کی تو اُس میں پہلی شرط ہے کہ عمران خان کو رہا کیا جائے اور بنیادی شرط ہی حکومت کے لیے ہضم ہونے والی نہیں ہے۔

احمد بلال محبوب کی رائے میں اِس بات کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ احتجاج کے پیچھے کوئی ‘خفیہ طاقت’ ہو اور ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ کسی خاص اجازت کے بغیر اِس سطح کے احتجاج نہیں ہوتے۔

تجزیہ کار مظہر عباس کی رائے میں پاکستان کے موجودہ وزیرِ داخلہ ایک غیر سیاسی آدمی ہیں۔ اُن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک غیر سیاسی آدمی کی جو سوچ ہوتی ہے وہی محسن نقوی کی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال، بالخصوص بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالات کے تناظر میں وزیرِ داخلہ کسی تجربہ کار شخص کو ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ محسن نقوی چیئرمین پی سی بی بھی ہیں اور ایسے میں کسی بھی سیکیورٹی ناکامی کا ملبہ حکومت پر ہی گرے گا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نے جس طرح ‘فائنل کال’ دی ہے اس سے لگتا ہے کہ صورتِ حال ‘پوائنٹ آف نو ریٹرن’ کی جانب بڑھ رہی ہے۔

سابق آئی جی پنجاب شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ حکومت احتجاج کو روکنے کے لیے احتیاط سے کام لے رہی ہے تاکہ خون خرابے سے بچا جا سکے جس کا اظہار وفاقی وزیرِ داخلہ بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فورسز کا کام کسی بھی احتجاج کو روکنا نہیں ہوتا نہ ہی یہ اُن کے فرائض میں شامل ہے۔ فورسز کو تو بلایا جاتا ہے تو وہ آتی ہیں۔

ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ محمد خان جونیجو جب وزیراعظم تھے تو اُنہوں نے سیاسی جماعتوں کو تمام چیزوں کی مکمل آزادی دے دی تھی حالاں کہ اُس زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بہت زیادہ مخالفت تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بڑے بڑے جلسے کرتی رہیں، آخرکار فریقین بات چیت کے لیے میز پر آ گئے جس کے بعد معاملات سُدھر گئے اور انتخابات بھی ہو گئے۔ اِسی طرح سے حکومت کو معاملات کو سلجھانا چاہیے۔

مذاکرات کی گارنٹی کون دے گا؟

پاکستان کے سیاسی منظر نامے اور احتجاجوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ فریقین کے درمیان کوئی تیسرا ثالثی کی کوشش کراتا ہے اور گارنٹی دیتا ہے۔

اِس سوال کے جواب میں ‘پلڈاٹ’ کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ ہر ایسے مذاکرات میں اہم عنصر یہ ہوتا ہے کہ اِس کی گارنٹی کون دے گا؟ اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں فوج اور غیر ملکی دوست حکومتیں بھی گارنٹی دیتی رہی ہیں لیکن اِس مرتبہ یہ دونوں امکانات نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ عمرن خان نے فوج اور بیرونی قوتوں کو فریق بنا لیا ہے۔ مثلاً ماضی میں سعودی عرب کی حکومت یا اُن کا سفیر یہ کام کر لیتے تھے۔ لیکن اب ایسا نظر نہیں آ رہا۔ مذاکرات کی صورت میں اصل مسئلہ گارنٹی دینے والے کا ہو گا۔



Supply hyperlink

Leave a Reply