|
پشاور — پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قدرے پرامن سمجھے جانے والے ضلع کرک میں بے امنی کے حالیہ واقعات نے مقامی آبادی کی تشویش میں اضافہ کیا ہے۔ جب کہ علاقے میں پرواز کرتے ڈرونز بھی خوف و ہراس میں اضافہ کر رہے ہیں۔
رواں ہفتے دو مختلف مقامات پر پولیس کو نشانہ بنایا گیا۔ جمعرات کو ایک ایسے ہی حملے میں بانڈہ داؤد شاہ میں ایک پولیس چوکی کو نشانہ بنایا گیا جس میں تین اہلکار ہلاک جب کہ چھ زخمی ہوئے۔
ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کرک شہباز الہٰی کہتے ہیں کہ کرک وہ واحد ضلع ہے جو گزشتہ 20 برس سے دہشت گردی کے ناسور سے محفوظ تھا۔ تاہم حالیہ واقعات کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے۔
ضلع کرک تیل، گیس، یورینیم، جپسم اور کوئلے سے مالا مال ہے اور یہاں صوبے کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرح خواندگی بھی زیادہ ہے۔
کیا یہاں بھی فوجی آپریشن کرنا پڑے گا؟
شدت پسندی کے موضوع کے ماہر داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ ضلع کرک جیسے دشوار گزار علاقے میں سیکیورٹی فورسز کے لیے آپریشن کرنا آسان نہیں ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ماضی میں فوج کے کامیاب آپریشنز کی بات کی جائے تو وہ زیادہ تر سابقہ قبائلی علاقوں تک محدود تھے اور اس کی کئی وجوہات تھیں۔
اُن کے بقول قبائلی علاقوں میں کولیٹرل ڈیمیج یعنی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران شہری املاک کے نقصان کی زیادہ پرواہ نہیں کی جاتی تھی کیوں کہ وہاں سے ایسی خبریں کم ہی باہر آتی تھیں۔ جب کہ کرک ایک سیٹلڈ علاقہ ہے جہاں کسی بھی کارروائی کے سماجی اور سیاسی اثرات ہو سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے فوجی آپریشن کے دوران شہری املاک کو نقصان پہنچنے کے تاثر کو رد کرتے رہے ہیں۔
ضلع کرک کے رہائشی سجاد احمد کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ سے لگاتار سورج ڈھلنے کے بعد سے طلوع ہونے تک علاقے میں ڈرون پرواز کرتے رہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کا گزر بسر کا ذریعہ یہی پہاڑ ہیں ، یہ لوگ فجر سے پہلے اُٹھ کر ان پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے گھاس اور لکڑیاں کاٹ کر بیچ دیتے ہیں۔
اُن کے بقول روزی کی تلاش میں پہاڑوں پر جانے والوں میں سے کچھ لوگوں نے اس پہاڑی سلسلے میں مسلح افراد کو نقل و حرکت کرتے دیکھا جن کے خدوخال اور لباس مقامی افراد سے مختلف تھے جس کے بعد اندازہ ہوا کہ ڈرون اڑانے والوں کا سرا کہیں نہ کہیں ان ہی افراد سے جا ملتا ہے۔
‘شدت پسند اپنی حکمتِ عملی مسلسل تبدیل کر رہے ہیں’
داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ آپریشن “ضربِ عضب” کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنی حکمت عملی تیزی سے تبدیل کی ہے۔
اُن کے بقول اب شدت پسند گروہ گوریلا وارفیئر (چھاپہ مار جنگ) کی حکمتِ عملی پر عمل کر رہے ہیں جس کے تحت وہ کسی ایک علاقے میں مستقل ٹھکانے بنانے کے بجائے مختلف مقامات پر متحرک رہتے ہیں، تاکہ وہ سیکیورٹی فورسز سے بچ سکیں۔
داؤد خٹک کے مطابق کرک میں شدت پسندوں کی کارروائیاں تیز ہونے کے پیچھے ایک بڑی حکمتِ عملی کارفرما ہے اور سیکیورٹی اداروں کو اس پہلو پر خاص طور پر توجہ دینی ہو گی۔
داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کے باعث عوام اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان اعتماد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب صوبے کا سب سے محفوظ تصور کیا جانے والا ضلع کرک بھی شدت پسندوں کی زد میں آجائے تو اس سے نہ صرف سیکیورٹی فورسز کا مورال متاثر ہو سکتا ہے بلکہ عوام اور فورسز کے درمیان پہلے سے موجود بداعتمادی مزید بڑھ سکتی ہے۔”
ان کے مطابق کرک میں شدت پسندی کا پنپنا سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے کیوں کہ یہاں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں مشکل ہیں۔ دیگر متاثرہ علاقوں میں ٹینک، آرٹلری اور فضائی کارروائی ممکن تھی لیکن کرک جیسے علاقے میں یہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہری علاقوں میں طاقت کے بھرپور استعمال کے بجائے انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ان سے صرف محدود نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
دہشت گردی کی لہر
کرک سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی ریاض خٹک کہتے ہیں کہ ضلع میں امن و امان کی بہتر صورتِ حال کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2010 میں ایک خود کش ہوا تھا جس میں پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ان کے مطابق اس حملے کے بعد کرک میں ایک دہائی تک امن رہا، لیکن گزشتہ دو ماہ میں شدت پسندی نے ایک منظم انداز میں دوبارہ سر اٹھانا شروع کر دیا ہے جس سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے۔
ریاض خٹک کے بقول گزشتہ ایک ماہ کے دوران کئی واقعات پیش آئے۔ پہلے نشپہ کے علاقے سے تین افراد کو اغوا کیا گیا پھر بانڈہ داؤد شاہ میں ایک بینک کو لوٹا گیا اور بدھ کو پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر سرکی لواغر کے علاقے میں فائرنگ کی گئی۔
اُن کے بقول اسی رات شدت پسندوں نے بانڈہ داؤد شاہ میں پولیس چوکی پر حملہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بھی رونما ہونے لگے ہیں۔
مقامی لوگوں اور سیکیورٹی حکام کے مطابق ان واقعات نے ضلع میں امن و امان کی صورتِ حال پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ کرک بھی دیگر شدت پسندی سے متاثرہ اضلاع کی طرح مستقل خطرات کی زد میں آ سکتا ہے۔
جدید ہتھیاروں اور ڈرونز کا استعمال
مقامی صحافی ریاض خٹک کے مطابق کرک میں حالیہ شدت پسندی کے واقعات تاریخی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ شدت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نگرانی کے لیے ڈرونز کا استعمال بھی شروع کر دیا ہے۔
ریاض خٹک کے بقول ڈرونز اسلحے سے لیس نہیں ہوتے بلکہ شدت پسند انہیں پوری رات آپریٹ کرتے ہیں تاکہ سیکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں۔ اگر کوئی آپریشن کیا جائے تو وہ بروقت فرار یا دفاعی حکمتِ عملی اپنا سکیں۔
ڈی پی او شہباز الہٰی کے مطابق شدت پسندوں کے ٹھکانے پولیس کو معلوم ہیں اور مختلف مواقع پر ان کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔ تاہم دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شدت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اکثر پنجاب کی سمت براستہ میانوالی نکل جاتے ہیں۔
جدید ہتھیاروں اور جنگی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے شہباز الہٰی نے بتایا کہ شدت پسند ایسے اسنائپر رائفلز استعمال کر رہے ہیں جن کی فائرنگ کی آواز تک سنائی نہیں دیتی جس سے جوابی کارروائی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔
پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعے سے متعلق بھی اُن کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں نے چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں سے چوکی کو نشانہ بنایا۔ ان کے بقول، شدت پسند جدید اسلحے سے لیس تھے اور منظم انداز میں حملہ کر رہے تھے۔
پولیس افسر کے مطابق شدت پسند افغانستان میں چھوڑے گئے اسلحے اور جدید جنگی آلات کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائیاں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔