چین کے سیکیورٹی خدشات پر پاکستان کی یقین دہانیاں؛ ’زمینی حقائق بہت تلخ ہیں‘

چین کے سیکیورٹی خدشات پر پاکستان کی یقین دہانیاں؛ ’زمینی حقائق بہت تلخ ہیں‘ Leave a comment

  • چین اور پاکستان کے صدور کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں اسلام آباد نے سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی دہرائی ہے۔
  • بعض ماہرین کے نزدیک گزشتہ برسوں میں مختلف منصوبوں پر کام کرتے ہوئے سب سےز یادہ چینی ورکر پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔
  • صدر زرداری کے دورے کا مقصد بھی چین کے سیکیورٹی خدشات دور کرنا تھا: تجزیہ کار
  • پاکستان میں2013 سے اب تک چینی شہریوں پر 17 حملے کیے گئے ہیں جن میں درجن سے زائد ہلاکتیں اور 37 چینی شہری زخمی ہوئے ہیں: تجزیہ کار
  • بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں نے چین کی حکومت کو سی پیک کے منصوبوں سے اپنے شہری دور رکھنے کی دھمکیاں دے رکھی ہیں۔
  • پاکستان ایک جانب چین کو اس کے شہریوں کے تحفظ کی گارنٹی تو دے رہا ہے لیکن حقیقت میں زمینی حقائق کافی تلخ ہیں: سابق سفارت کار

کراچی_ پاکستان نے ایک بار پھر چین کی قیادت کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ ملک میں چینی اہلکاروں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تحقیقات اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے موجودہ حالات اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کو تحفظ دینا حکومت کے لیے ایک بڑا چینلج ہے۔دوسری جانب معاشی چیلنجز کی وجہ سے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت منصوبوں کی تکمیل کے سوا چارہ بھی نہیں ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر بیجنگ جانے والے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قیادت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا کیوں کہ بطور اسٹریٹجک پارٹنر اور میزبان ملک یہ پاکستان کی ذمے داری ہے۔

بیان میں فریقین نے ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانے اور تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

پاکستانی قیادت نے چین کو یقین دلایا ہے کہ چینی اہل کاروں پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملوں کی تحقیقات اور ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

اس وقت ہزاروں چینی شہری پاکستان میں جاری درجنوں مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی صحیح تعداد کے بارے میں کافی تضاد پایا جاتا ہے۔

جن منصوبوں پر چینی شہری کام کررہے ہیں ان میں سے بہت سےسی پیک کے تحت آتے ہیں جب کہ بعض منصوبوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم پاکستان میں تشدد کے حالیہ بڑھتے واقعات کے علاوہ گزشتہ برس کئی چینی باشندوں کی ہلاکت پر چین نے سیکیورٹی کی صورتِ حال اور اس کے نتیجے میں اپنے شہریوں کی جانوں کے ضیاع پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

گزشتہ سال دہشت گردی کے حملوں میں کم از کم پانچ چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اکتوبر میں کراچی ائیرپورٹ کے باہر ہونے والے خوف ناک خود کش دھماکے میں کئی چینی شہری زخمی ہوئے لیکن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

مارچ 2023 میں خیبر پختونخواہ کے ضلع شانگلہ میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں کم از کم پانچ چینی شہری ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔

چیلنج کیوں؟

تجزیہ کاروں کے مطابق اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ چینی شہری پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔

امریکہ میں مقیم بین الاقوامی سیکیورٹی امور کے ماہر اور یونائیٹڈ انسٹیٹیوٹ آف پیس سے منسلک محقق اسفندیار میر کا کہنا ہے کہ ان کے جمع کیےگئے اعداد و شمار کے مطابق 2013 سے اب تک پاکستان میں چینی شہریوں پر 17 حملے کیے جاچکے ہیں جن میں درجن سے زائد ہلاکتیں اور 37 چینی شہری زخمی ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حملے پاکستانی لیڈر شپ کی جانب سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود جاری رہے۔

تجزیہ کار اور سابق سفیر سید حسن حبیب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ صدر زرداری کے اس دورے کا مقصد چینی قیادت کے سیکیورٹی خدشات دور کرناہے تاکہ سی پیک کے اگلے مراحل پر کام شروع ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جانب چین کو اس کے شہریوں کے تحفظ کی گارنٹی تو دے رہا ہے لیکن حقیقت میں زمینی حقائق کافی تلخ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت سیکیورٹی صورتِ حال کافی خراب ہے اور اسے بہتر بنانا پاکستان کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی انٹیلی جینس بہتر بنانے کے ساتھ سیکیورٹی امور پر کافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ادھر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین بہتر طور پر جانتا ہے کہ پاکستان کئی تنازعات کا شکار ملک ہے اور یہاں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہونے تک جانی نقصان روکنا ایک چیلنج ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے چینی شہریوں کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتطامات کیے ہیں لیکن چینی قیادت کے خدشات بھی برقرار ہیں۔ تاہم ان کے بقول سیکیورٹی کی صورتِ حال دونوں ملکوں کی دوستی پر اثر انداز نہیں ہوگی۔

عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے سی پیک منصوبے تاخیر کا شکار نہیں ہوئے ہیں۔ اس کے تحت شروع ہونے والےنیلم جہلم پاور پراجیکٹ سمیت بیش تر توانائی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی امداد سے گوادر میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر بھی مکمل ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر کئی مںصوبوں پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے۔

’زیادہ آپشن نہیں‘

بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیموں نے چین کی حکومت کو سی پیک کے منصوبوں سے اپنے شہری دور رکھنے کی دھمکیاں دے رکھی ہیں۔

بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں سی پیک کو بلوچستان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں فعال کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) سے متعلق بھی ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ اس نے فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے لڑائی میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے۔

حال ہی میں بلوچستان میں ہونے والے حملوں میں پاکستان کی فوج کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حکومتِ پاکستان متعدد بار دعویٰ کرچکی ہے کہ افغانستان اور بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں اورٹی ٹی پی کو مدد فراہم کرتے ہیں جس کی یہ ممالک تردید بھی کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کو اس وقت بلوچستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے جہاں سی پیک کے اہم ترین منصوبے ہیں۔

معاشی مسائل کا شکار پاکستان کی حکومتیں سی پیک کو ملکی معیشت کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دیتی ہیں۔

سابق سفارت کار سید حسن حبیب کا کہنا ہے کہ چین ہی واحد ملک ہے جو مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوا اور اگر چینی شہری بھی پاکستان سے چلے گئے تو معاشی بہتری کا نادر موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ اب پاکستان کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں اس لیے اب حکومتِ پاکستان کو امن و امان اور سیکیورٹی سے متعلق چینی قیادت کے خدشات دور کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کرنا ہوں گے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply