|
اقوام متحدہ کےمحنت سے متعلق بین الاقوامی ادارے ، آئی ایل او کی ایک نئی رپور ٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں عہدے دار تربیتی اور تعلیمی سنٹرز کو نہ صرف سنکیانگ اور تبت میں جبری مشقت کے لیے استعمال کر رہے ہیں بلکہ وہ اضافی دیہی کارکنوں کو بڑے پیمانے پر ملک بھر کے سرکاری لیبر پروگراموں میں منتقل کر رہے ہیں۔ چین نے اس رپورٹ کو بے بنیاد اور غلط قرار دیا ہے۔
پیرکو جاری کی گئی آئی ایل او کی رپورٹ میں اس بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں کہ چینی حکام نے کس طرح اقلیتی آبادی کی غربت کی سطح کے بارے میں چھان بین اور نگرانی کی کوششیں تیز کر دی ہیں اور صوبے بھر میں مزدوروں کی منتقلی کے لیے شرائط کو سخت تر کر دیا ہے جب کہ نسلی اقلیتوں کے چھوٹے کسانوں کو اپنی زمین سرکاری قیادت والی بڑی کمپنیوں کو منتقل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔
’دیہی کارکنوں کو آزاد کرانا ‘ کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کارروائی سے سنکیانگ میں ایغور ، تبتی اور دوسری نسلی اقلیتوں کے ہزاروں افراد سخت جبری حالات میں ، سولر پینلز پروڈکشن ،بیٹری تیار کرنے ، موسمی ذراعت اور سمندری خوراک کی پراسسنگ میں کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سنکیانگ کاا یغور خودمختار علاقہ، اور تبتی خودمختار علاقہ چین کے صوبائی سطح کے پانچ خودمختارصوبوں میں سے دو صوبے ہیں ۔ دونوں ملک کے مغربی علاقوں میں واقع ہیں۔
جبری مشقت کے دو نظام
آئی ایل او کی تازہ ترین رپورٹ میں سنکیانگ میں نافذ جبری مشقت کے دو نظاموں پر انٹر نیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن یا آئی ٹی یو سی کے لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
پہلے سسٹم میں ہنر سکھانے والے مراکز اور تعلیمی مراکز میں ایغور اور دوسری نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو بڑے پیمانے پر عارضی حراست میں رکھنا شامل ہے ، جنہیں بعد میں عام جیلوں میں طویل قید کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق ان مراکز سے رہا کیے گئے قیدیوں سے اکثر ٹیکسٹائل اور الیکٹرانکس جیسی صنعتوں میں جبری مشقت کروائی جاتی ہے۔
رپورٹ کےمطابق دوسرے سسٹم میں ان اقلیتی کارکنوں کی بڑے پیمانےپر سرکاری قیادت کے لیبر پروگراموں میں منتقلی شامل ہے ۔ اس طرح انہیں روزی کمانے کے روائتی طریقوں سے دور کرکے شمسی توانائی کے پینلز کی پروڈکشن ، بیٹری مینیو فیکچرنگ ، موسمی زراعت اور سمندری خوراک کی پراسسنگ جیسی صنعتوں میں کام کرنےبھیج دیا جاتا ہے۔
تبت میں کارکنوں کی جبری منتقلی
آئی ایل او کی رپورٹ میں سرکاری منظوری سے تبتی افراد کی منتقلی پر خدشا ت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،’’ یہ پالیسیاں جبری طریقوں کا اطلاق کرتی ہیں جیسے فوجی طرز کے ووکیشنل ٹریننگ کے طریقے اور سیاسی گروپوں کی جانب سے تبتی خانہ بدوشوں او ر کسانوں کو مجبور کیا جانا کہ وہ روزی کمانے کے روائتی طریقوں کی جگہ سڑکوں کی تعمیر ، کان کنی ، یا فوڈ پراسسنگ جیسی صنعتوں میں ملازمت کریں جہاں نقد اجرت فراہم کی جاتی ہو اور اس طرح مذہب کا منفی اثر کم ہو سکے ۔ ‘‘
آئی ٹی یو سی کا اندازہ ہے کہ تبت میں محنت کشوں کی منتقلی میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے جس سے 2024 میں 6 لاکھ 30 ہزار کارکن متاثر ہوئے تھے ۔ مزدوری دلوانے والے مقامی ایجنٹ اور کمپنیو ں کے لیے ترغیبات نےاس اضافے میں ایک کردار ادا کیا ہے ، اور اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ تبتیوں کو جبری طور پر ان کی آبائی زمینوں اور ثقافتی روایات سے دور کیا جارہا ہے ۔
بین الاقوامی رد عمل
حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں ، سرکاری اداروں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے سنکیانگ اور تبت میں محنت کشوں کے حالا ت کے بارے میں جواب دہی اور شفافیت کا بار بار مطالبہ کیا ہے اور ملکوں اور بین الاقوامی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان علاقوں سے منسلک اپنی ’سپلائی چین‘ کا از سر نو جائزہ لیں ۔
امریکہ نےا یغوروں کی جبری مشقت کی روک تھام سے متعلق ’ایغور فورسڈ لیبر پریوینشن ایکٹ‘ کے ساتھ جو 2022 میں نافذ ہواتھا، ان کی جبری مشقت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے ۔یہ قانون سنکیانگ سے اس وقت تک درآمدات پر پابندی عائد کرتا ہے جب تک کمپنیاں یہ ثابت نہ کر سکیں کہ انہیں جبری مشقت سے تیار نہیں کیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ امریکہ نے انسانی حقوق اور کارکنوں کے لیےساز گار حالات کی فراہمی پر مبنی تجارت سے اپنی وابستگی کو تقویت دیتے ہوئے جبری مشقت سے منسلک چینی اداروں پر پابندیاں اور برآمدی کنٹرول نافذ کر دیا ہے جب کہ بیجنگ پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ جبری مشقت کے پروگراموں کو ختم کرے ۔
اگرچہ چین کا موقف ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد غربت کا خاتمہ اور اقتصادی ترقی ہے ، محنت کشوں کے عالمی ادارے کے نتائج ان خدشات کو تقویت دیے ہیں کہ چین کے یہ اقدامات جبر واستبداد کےہتھکنڈے ہیں۔
آئی ایل او کے ماہرین کی کمیٹی نے چین سے باضابطہ درخواست کی ہے کہ وہ تفصیلی وضاحتیں فراہم کرے اور ان الزامات سے نمٹنے کے اس نے جو اقدامات کیے ہیں ان کو واضح کرے ۔ رپورٹ نے آخر میں بیجنگ پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی قومی اور علاقائی پالیسیوں کی اصلاح کرے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتیں ملازمت اور انتہا پسندی کے خاتمے سے متعلق پروگراموں کی آڑ میں جبری مشقت کا نشانہ نہ بنیں ۔
چین کا رد عمل
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے آئی ایل او کی رپورٹ کو بے بنیاد اور اس کی معلومات کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ۔
لیو نے وی او اے کو ایک ای میل کے جواب میں کہا ، ’’ کچھ طاقتیں مسلسل یہ جھوٹ پھیلا رہی ہیں کہ سنکیانگ اور شیزانگ میں جبری مشقت موجود ہے ۔ مقصد صرف چینی تاثر کو خراب کرنا ، سنکیانگ اور شیزانگ میں چینی حکومت کی پالیسیوں پر بے جا تنقید ، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور بین الاقوامی برادری کو دھوکا دینا اور سنکیانگ اور شیزانگ کی مستحکم ترقی میں خلل اندازی کرنا ہے ۔
وائس آف امریکہ کےقاسم کاشغر کی رپورٹ۔