|
چین اپنی نیوکلئیر فورس میں اضافہ کر رہا ہے، اس نے تائیوان کے خلاف اپنا فوجی دباؤ بڑھا دیا ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر لیے ہیں، یہ تفصیل بدھ کے روز جاری ہونے والی امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ میں بیان کی گئی ہے جس میں امریکہ کے ساتھ تنازعے کے کلیدی امور پر کارروائیوں کی تفصیل بتائی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین کے طاقتور سینٹرل ملٹری کمشن میں جو پیپلز لیبریشن آرمی کا نگراں ہے، بد عنوانی کے حالیہ واقعات سے بیجنگ میں فوج میں اضافے کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس میں جدت کی مہم کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔
ایک سینئیر دفاعی عہدیدار نے کہا کہ اگر کچھ پروگراموں میں چین نے پیش قدمی کی ہے تو کچھ میں اسے پیچھے بھی ہٹنا پڑا ہے۔
عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی اندازے کے حوالے سے خبردار کیا کہ بیجنگ ایک زیادہ متنوع اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس نیوکلئیر فورس تیار کر رہا ہے ۔ اس کے نیوکلئیر ہتھیاروں کی متوقع تعداد میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے اور وہ اپنے اہداف پرنشانے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔
چین کے فوجی اہداف میں جدیدیت کا عمل 2035 تک مکمل کر کے چینی فوج کو 2049 تک دنیا کی بہترین فوج بنانا شامل ہے۔ اس کا ایک ہدف 2027 تک ایک کم مدت کا منصوبہ بھی ہے جو جدیدیت کے عمل مین پیش رفت سے متعلق ہے۔ 2027 میں پیپلز لیبریشن آرمی کے قیام کے سو سال بھی مکمل ہو جائیں گے۔
2024 کے وسط میں ایک اندازے کے مطابق چین کے پاس اس کے ذخیرے میں 600 نیوکلئیر ہتھیار ہیں اور 2030 تک ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو جائے گی۔
امریکہ کے پاس فعال نیوکلئیر ہتھیاروں کی تعداد معاہدوں کے مطابق 1550 ہے۔ مگر اس کا نیوکلئیر ہتھیاروں کا انفرا سٹرکچر پرانا ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع آئندہ عشرے کے دوران اسے اپڈیٹ کرنے کے لیے سینکڑوں ارب ڈالر صرف کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین بین البرِ اعظمی دور مار میزائل تیار کر رہا ہے جو اس کی نیوکلئیر صلاحیت والی فورسز کو خاصا بہتر بنا دے گا۔ اور ہو سکتا ہے چین روائیتی ہتھیاروں سے لیس بین البرِ اعظمی میزائل سسٹم بھی تیار کر رہا ہو۔
رپورٹ کے مطابق، چینی فوج نے امریکی فوجی طیاروں کو فضا مین انٹر سیپٹ کرنے کی کارروائیوں میں کمی کر دی ہے جبکہ خطے میں اتحادی فورسز کے خلاف غیر محفوظ کارروائیاں جاری رکھی ہیں۔ امریکہ کی جانب چینی رویےمیں تبدیلی بظاہر ایسے وقت ہوئی جب 2023 میں صدر بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ نے فوج سے فوج کے رابطوں پر اتفاق کر لیا تھا۔
امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ میں تائیوان کے گرد چینی فوجی موجودگی میں مسلسل اضافے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے جو ایک خود مختار جزیرہ ہے اور جس پر چین اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چینی بحریہ اس خطے میں زیادہ موجود رہی ہے اور اس علاقے میں فوجی مشقوں کے علاوہ اس جزیرے کی فضائی حدود میں اس کی پروازیں بھی جاری رہی ہیں۔
اس جارحانہ رویے کے باوجود سینئیر امریکی دفاعی عہدیدار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ تائیوان کے بارے مین چین سے تنازع فوری یا ناگزیر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، امریکہ کے پاس کافی ڈیٹرینس موجود ہے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسے ایسا ہی رکھیں۔
( وی او اے کی کارلا بیب کی رپورٹ کے علاوہ اس خبر میں کچھ معلومات اے پی سے لی گئیں)