نئی دہلی کے سفارتی و صحافتی حلقوں میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس محمد سجاد قاضی کی جانب سے بھارت کے ایجنٹوں پر پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے الزام پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جب کہ پاکستان میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ایسا الزام لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک نگراں حکومت ہے لہٰذا اس کے الزام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے بقول ایسا لگتا ہے کہ کینیڈا اور امریکہ کے الزامات سے پاکستان کو بھارت پر الزام لگانے کا حوصلہ ملا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ سائرس سجاد قاضی نے جمعرات کو نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ان کے پاس پاکستانی سرزمین پر دو پاکستانی شہریوں کے قتل میں بھارتی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ’مصدقہ ثبوت‘ موجود ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور انہیں ’بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اس نے اسے بھارت مخالف پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے کی پاکستان کی تازہ ترین کوشش قرار دیا ہے۔
سابق سفارت کار اشوک سجن ہار نے وزارتِ خارجہ کی جانب سے پاکستانی الزام کی تردید کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستان نے یہ تو کہا ہے کہ اس کے پاس اپنے شہریوں کی ہلاکت کے بارے میں بھارت کے خلاف پختہ ثبوت ہیں لیکن اس نے کوئی ثبوت نہیں دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف بھارت سے اچھے رشتے چاہتے تھے۔ عمران خان نے بھی بھارت سے خوش گوار تعلقات کے قیام کا بیان دیا تھا۔ لیکن وہاں کی موجودہ حکومت نے بھارت پر جو الزام عائد کیا ہے کہ وہ ان دونوں وزرائے اعظم کے موقف سے مختلف ہے۔
ان کا خیال ہے کہ اس وقت پاکستان پر مختلف قسم کا دباؤ ہے۔ حالیہ معاملہ ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستانی سرحد میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا ہے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی کارروائی کی ہے۔
ان کے بقول پاکستان کی اقتصادی حالت خراب ہے۔ اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ اس نے دباؤ کی وجہ سے ہی ایسا الزام لگایا ہو۔
‘الزامات کا پاکستان میں انتخابات سے تعلق نہیں ہے’
اشوک سجن ہار اس الزام کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات سے جوڑ کر دیکھنے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں عام طور پر انتخابات میں بھارت مخالف بیانیہ کی بنیاد پر مہم نہیں چلائی جاتی۔ لہٰذا اس وقت جو الزام لگایا گیا ہے اس کا وہاں کے انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔
ان کے خیال میں اگر ایسا الزام کسی سیاسی جماعت کی جانب سے لگایا جاتا خواہ نواز شریف بیان دیتے یا بلاول بھٹو یا کوئی اور ایسا سیاست داں یہ الزام لگاتا جو انتخاب لڑ رہا ہو، تب اس الزام کی کوئی اہمیت ہوتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ وہاں کی موجودہ حکومت ایک نگراں حکومت ہے۔ وہ خارجہ پالیسی کے تعلق سے نہ تو کوئی اہم فیصلہ کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قدم اٹھا سکتی ہے۔ لہٰذا اس کے الزام کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ کینیڈا اور امریکہ نے بھی بھارتی ایجنٹوں پر اپنی سرزمین پر قاتلانہ حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔
امریکی استغاثہ نے تو اس سلسلے میں مقدمہ بھی قائم کیا ہے۔ اس نے بھارت کو کچھ شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ بھارت نے ان شواہد کی روشنی میں اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
لیکن کینیڈا کے الزام کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ اشوک سجن ہار کہتے ہیں کہ کینیڈا نے 18 ستمبر کو الزام لگایا اور آج 26 جنوری تک اس نے کوئی ثبوت نہیں دیا۔
ان کے بقول ہردیپ سنگھ نجر کو 18 جون کو ہلاک کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ابھی اس میں ایف آئی آر ہوئی ہے یا نہیں، کیس کہاں تک آگے بڑھا۔ ابھی کسی بھی پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ان کے مطابق امریکہ نے یہ نہیں کہا کہ بھارتی حکومت قتل میں ملوث ہے۔ تاہم بھارت نے اس کے پیش کردہ ثبوتوں کی تحقیقات کے لیے فوراً ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کے ایک رہنما آلوک وتس پاکستان کے الزام کو اس کی بوکھلاہٹ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خود دہشت گردوں کے تربیتی کیمپ ہیں جو دوسرے ملکوں بالخصوص بھارت کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ لہٰذا بھارت پر الزام لگانے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی بھارت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ہی مودی حکومت نے پاکستان سے مذاکرات کرنے سے انکار کیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی جانب سے بھارت سے جامع مذاکرات کے ذریعے اختلافات کو ختم کرنے کے سلسلے میں بارہا اپیل کی گئی ہے اور ہر بار بھارت نے یہ کہہ کر بات چیت سے انکار کیا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔
پاکستان دہشت گردی کی اعانت کے الزام کی تردید کرتا ہے۔ اس کے مطابق حکو مت نے انسدادِ دہشت گردی کے متعدد آپریشن کیے ہیں۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔
‘الزام کی وجہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے’
سینئر تجزیہ کار اسد مرزا بھی پاکستانی الزام کو اہمیت نہیں دیتے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کے اندرونی حالات اچھے نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس الزام کا مقصد اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔
ان کے بقول پاکستان پر خود دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں حالیہ ایرانی فورسز کی کارروائی کا حوالہ دیا جس نے پاکستان کے اندر موجود دہشت گردوں پر کارروائی کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سے قبل بھی بھارتی ایجنٹوں پر پاکستانی شہریوں کے قتل کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کی بھارت نے تردید کی ہے۔ تاہم غالباً یہ پہلا واقعہ ہے جب پاکستانی حکومت نے بھارت پر اپنے شہریوں کے قتل کا الزام لگایا ہے۔
بھارت پہلے بھی اس قسم کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔