ٹرمپ کا حمایت یافتہ اخراجات کا بل ایوانِ نمائندگان میں مسترد، شٹ ڈاؤن کا خطرہ بڑھ گیا

ٹرمپ کا حمایت یافتہ اخراجات کا بل ایوانِ نمائندگان میں مسترد، شٹ ڈاؤن کا خطرہ بڑھ گیا Leave a comment

  • حکومتی اخراجات کے پیکج پر ووٹنگ کے دوران 235 ارکان نے اس کی مخالفت کی جب کہ 174 نے حمایت میں ووٹ دیا۔
  • نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کے باوجود 38 ری پبلکنز نے اخراجات کے پیکج کے خلاف ووٹ دیا۔
  • حکومتی فنڈنگ کی میعاد جمعے کی شب ختم ہو رہی ہے۔ اگر قانون ساز ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے میں ناکام رہے تو امریکی حکومت جزوی شٹ ڈاؤن پر چلی جائے گی۔
  • شٹ ڈاؤن کے باعث مالیاتی امور سے لے کر نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے تک سرکاری خدمات متاثر ہوں گی۔
  • امریکہ میں شٹ ڈاؤن کی صورت میں لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری کام رک جاتے ہیں۔

ویب ڈیسک _ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے جمعرات کو ری پبلکنز پارٹی کی جانب سے پیش کردہ اخراجات سے متعلق پیکج کو مسترد کر دیا ہے۔ اس پیکج کو نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت بھی حاصل تھی۔

ٹرمپ کی حمایت کے باوجود 38 ری پبلکنز نے پیکج کے خلاف ووٹ دیا جب کہ تین ڈیموکریٹس ارکان کے علاوہ تمام نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔

ایوانِ نمائندگان میں حکومتی اخراجات کے پیکج پر ووٹنگ کے دوران 235 ارکان نے اس کی مخالفت کی جب کہ 174 نے حمایت میں ووٹ دیا۔

حکومتی فنڈنگ کی میعاد جمعے کی شب ختم ہو رہی ہے۔ اگر قانون ساز ڈیڈ لائن میں توسیع کرنے میں ناکام رہے تو امریکی حکومت جزوی شٹ ڈاؤن پر چلی جائے گی۔ جس کی وجہ سے حکومتی ادارے معمول کے مطابق کام جاری نہیں رکھ پائیں گے۔

شٹ ڈاؤن کے باعث مالیاتی امور سے لے کر نیشنل پارکس میں کوڑا اٹھانے تک سرکاری خدمات متاثر ہوں گی۔

امریکی ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ کرسمس کی چھٹیوں کے موقع پر مسافروں کو ہوائی اڈوں پر طویل قطاروں میں انتظار بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر مائک جانسن سے جب صحافیوں نے سوال کیا کہ اگلا قدم کیا ہوگا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک اور حل کے ساتھ آئیں گے۔

اس سے قبل امریکی کانگریس کے اعلیٰ ترین ڈیموکریٹک اور ری پبلکن اراکین ایک عبوری بجٹ پیکج پر کام کر رہے تھے۔ تاکہ وفاقی اداروں کو اگلے سال 14 مارچ تک کام کرنے کے لیے فنڈز دستیاب رہیں۔

تاہم ٹرمپ اور ان کے حامی امیر ترین شخص ایلون مسک نے عبوری بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے اسے ڈیموکریٹس کے لیے ایک فضول تحفہ قرار دیا تھا۔

ایوانِ نمائندگان میں ری پبلکنز بل پر ووٹنگ سے قبل ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں نے ہی خبردار کیا تھا کہ اگر کانگریس نے حکومت کو شٹ ڈاؤن کی اجازت دی تو دوسری جماعت غلطی پر ہو گی۔

شٹ ڈاؤن میں کیا ہوتا ہے؟

امریکہ میں شٹ ڈاؤن کی صورت میں لاکھوں وفاقی ملازمین بغیر تنخواہ ملازمت سے معطل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری کام رک جاتے ہیں۔

البتہ ‘ناگزیر’ کاموں سے منسلک اہل کاروں کو معطل نہیں کیا جاتا لیکن شٹ ڈاؤن ختم ہونے تک انہیں ادائیگیاں نہیں کی جاتیں۔

شٹ ڈاؤن کے دوران ٹیکس جمع کرنے اور ڈاک کے محکمے جیسے ادارے اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔

ہر وفاقی ادارہ اور محکمہ شٹ ڈاؤن کی صورت میں پیشگی منصوبہ بندی کرتا ہے جس میں اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ ملازمین کو ادائیگیوں کے بغیر بھی کام جاری رکھنا ہو گا۔

کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق 1981 سے لے کر اب تک 14 بار گورنمنٹ شٹ ڈاؤن ہو چکا ہے جن میں سے کئی بار محض ایک یا دو روز کے لیے ہوئے۔

حالیہ برسوں میں طویل ترین شٹ ڈاؤن بارڈر سیکیورٹی سے متعلق ہونے والے تنازع کی وجہ سے ہوا تھا۔ دسمبر 2018 میں شروع ہونے و الا یہ شٹ ڈاؤن 34 دن تک جاری رہنے کے بعد جنوری 2019 میں ختم ہوا تھا۔

اس شٹ ڈاؤن کے دوران وفاقی حکومت کے 22 لاکھ ملازمین میں سے آٹھ لاکھ کو عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ شٹ ڈاؤن اس صورت میں ہوتا ہے جب وفاقی حکومت اخراجات کے لیے کانگریس سے منظوری حاصل نہ کر پائے۔ اگر کانگریس قرضوں کے بالائی حد میں اضافے کی منظوری نہ دے تو امریکہ کا محکمۂ خزانہ قرضوں کی ادائیگی نہیں کرپاتا۔

کانگریس اخراجات کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں کی بالائی حد کا تعین بھی کرتی ہے جسے ہر کچھ عرصے بعد بڑھانا پڑتا ہے۔

گورنمنٹ پر شٹ ڈاؤن کے مقابلے میں قرضوں کی بالائی حد بڑھانے کی عدم منظوری زیادہ گہرے اقتصادی اثرات مرتب کرتی ہے۔

(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔)



Supply hyperlink

Leave a Reply