ٹرمپ کا اہم عہدوں پر اپنے ‘وفادار’ سیاسی حامیوں کا انتخاب

ٹرمپ کا اہم عہدوں پر اپنے ‘وفادار’ سیاسی حامیوں کا انتخاب Leave a comment

  • ٹرمپ ریاست فلوریڈا سے سینیٹ کے رکن مارکو روبیو کو وزیرِ خارجہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
  • ہوم لینڈ سیکیورٹی چیف کے لیے ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم کو نامزد کر دیا گیا ہے۔
  • امریکہ کے آئندہ وزیرِ دفاع پیٹ ہیگزتھ ہوں گے۔
  • ٹرمپ نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے لیے جان ریٹ کلف کو نامزد کیا ہے۔
  • ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفشنسی‘ کی سربراہی ایلون مسک اور وویک وامسوامی کریں گے۔

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی مستقبل کی انتظامیہ کے لیے تیزی سے ری پبلکن رہنماؤں کا تقرر کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جو ان کی گزشتہ صدارت ختم ہونے کے بعد گزشتہ چار برس میں ان کے انتہائی وفادار رہے ہیں۔

امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں زیرِ گردش رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ ریاست فلوریڈا سے سینیٹ کے رکن مارکو روبیو کو وزیرِ خارجہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم امریکہ کے اس اعلیٰ ترین سفارت کار کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی شب کچھ عہدوں کے لیے عہدیداران کا اعلان کیا ہے جن میں ہوم لینڈ سیکیورٹی چیف کے لیے ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم شامل ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے لیے جن دیگر افراد کے ناموں کا اعلان کیا ہے ان میں وزیرِ دفاع کے لیے پیٹ ہیگزتھ اور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے عہدے کے لیے جان ریٹ کلف شامل ہیں۔

مارکو روبیو اور کرسٹی نوم کئی ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر کے امیدواروں کی فہرست میں شامل تھے۔ بعد ازاں ٹرمپ نے ریاست اوہائیو سے پہلی بار سینیٹ کے رکن منتخب ہونے والے جے ڈی وینس کو نائب صدر کا امیدوار نامزد کر دیا تھا۔

جے ڈی وینس کی نامزدگی کے بعد بھی مارکو روبیو اور کرسٹی نوم نے بھرپور وفاداری سے ٹرمپ کا ساتھ دیا اور وہ پانچ نومبر کے صدارتی انتخاب میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار اور نائب صدر کاملا ہیرس کو شکست دے کر امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہوئے۔

خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر جان ریٹ کلف امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کے 2020 میں سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ نیشنل انٹیلی جنس کے چھٹے سربراہ تھے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت میں آخری آٹھ ماہ تک اس عہدے پر امور انجام دیے تھے۔

نامزد وزیرِ دفاع پیٹ ہیگزتھ امریکہ کی فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ امریکی نشریاتی ادارے ’فاکس نیوز‘ سے بطور میزبان وابستہ ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفشنسی‘ (محکمہ برائے حکومتی کارکردگی) کی سربراہی ارب پتی کاروباری شخصت ایلون مسک اور ری پبلکن پارٹی میں صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں شامل رہنے والے وویک رامسوامی کریں گے۔

دونوں شخصیات امریکہ کی وفاقی حکومت کے ’بڑے پیمانے پر اداراجاتی اصلاحات‘ کے لیے تجاویز اور رہنمائی فراہم کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو ویلیم مک گینلی کو وائٹ ہاؤس کا قانونی مشیر مقرر کیا ہے۔

فلوریڈا سے کانگریس کے رکن مائیکل والٹز کو بھی نیشنل سیکیورٹی کا مشیر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

مائیکل والٹز نے رواں برس کے آغاز میں ری پبلکن پارٹی کی پارلیمان میں قانون سازی کی اس کوشش کی حمایت کی تھی جس کے تحت واشنگٹن کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام ڈونلڈ ٹرمپ کے نام پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دن قبل پیر کو تھامس ہومن کو ‘بارڈر زار’ مقرر کیا تھا۔ وہ ان کی گزشتہ مدتِ صدارت میں قائم مقام امیگریشن چیف رہ چکے ہیں۔ وہ ان کوشش کی قیادت کریں گے جس کے تحت دستاویزات کے بغیر یا غیر قانونی طور پر امریکہ میں موجود لاکھوں تارکینِ وطن کو واپس ان کے ممالک بھیجا جائے گا۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹیفن ملر کو ٹرمپ کی پالیسی سے متعلق ڈپٹی چیف آف اسٹاف کا عہدہ دیا جا سکتا ہے۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کی پہلی مدت میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ ان کو بھی تارکینِ وطن کے خلاف اقدامات کے لیے ایک توانا آواز قرار دیا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر کے طور پر نیو یارک کی رکنِ کانگریس الیس سٹافنک کو نامزد کیا گیا ہے۔ وہ بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی بھر پور حامی رہی ہیں۔

ٹرمپ نے آرکنسا کے سابق گورنر مائیک ہکبی کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ صدارتی انتخابات سے قبل بوڈ کاسٹر جو روگن سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کی 2017 سے 2021 کی صدارتی مدت میں سب سے بڑی غلطی “برے لوگوں یا بے وفا افراد” کو مقرر کرنا تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ “میں نے کچھ ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جن کا انتخاب مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔”

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گزشتہ مدتِ صدارت میں جن اہم عہدیداروں کا انتخاب کیا تھا ان میں سابق چیف آف اسٹاف جان کیلی اور نیشنل سیکیورٹی کے قومی مشیر جان بولٹن بھی شامل تھے۔ البتہ ٹرمپ کی صدارت ختم ہونے کے بعد وہ عوامی سطح پر ان کے ناقد رہے۔

جان کیلی نے اُسی برس انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک فاشسٹ حکمران کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ان دونوں افراد پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جان کیلی بد معاش لیکن کمزور شخص ہے جب کہ انہوں نے جان بولٹن کو بے وقوف شخص قرار دیا تھا۔

انتخابات سے قبل جان بولٹن نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی صدارت کی دوسری مدت میں ایسے افراد کا تقرر کریں گے جو ان کے وفادار ہوں۔ وہ ایسے مرد اور خواتین کا تقرر کریں گے جو ان کے ہاں میں ہاں ملائیں۔

مارکو روبیو نے 2016 میں ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے حصول کی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا بھر پور مقابلہ کیا تھا۔ البتہ ٹرمپ نامزدگی حاصل کر کے پہلی مدت کے لیے امریکہ کے صدر بن گئے تھے۔ اس وقت مارکو روبیو نے ٹرمپ کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کو چھوٹے ہاتھوں والا قرار دیا تھا جب کہ ٹرمپ نے ان کو طنز کرتے ہوئے ’چھوٹا مارکو‘ کہا تھا۔

البتہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دیگر کئی ناقدین کی طرح مارکو روبیو نے رواں برس کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی۔

مارکو روبیو نے چین، ایران، وینزویلا اور کیوبا پر انتہائی سخت مؤقف اپنا کر حالیہ برسوں میں خود کو خارجہ پالیسی کے ایک ماہر کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے بعض اوقات دیگر ممالک میں تنازعات میں امریکہ کی شمولیت کے معاملے پر ری پبلکن پارٹی کے رہنماؤں سے اختلاف بھی کیا ہے۔ ان میں 2022 میں روس کے حملے کے بعد امریکہ کے یوکرین کے لیے فنڈز کی فراہمی کا معاملہ بھی شامل ہے۔

البتہ حالیہ دنوں میں روبیو نے امریکہ کی یوکرین کے لیے مزید فوجی امداد دینے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی یوکرین کو مزید فنڈز کی فراہمی پر شبہات ظاہر کر چکے ہیں۔

مارکو روبیو نے نشریاتی ادارے ’این بی سی نیوز‘ سے ستمبر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین کے شہری روس کا مقابلہ کرنے کے لیے ناقابلِ یقین حد تک بہادر اور مضبوط رہے ہیں۔ لیکن امریکہ ایک تعطل کی شکار جنگ کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے۔ اس کو اب کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے یا پھر وہ ملک ایک صدی پیچھے چلا جائے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ روس کی طرف دار نہیں کر رہے۔ لیکن بد قسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ یوکرین میں جنگ کا خاتمہ مذاکرات سے سامنے آنے والا حل ہے۔

ساؤتھ ڈکوٹا کی گورنر کرسٹی نوم کو قومی سطح پر شہرت اور قدامت پسندوں میں بہت زیادہ پذیرائی 2021 میں اُس وقت ملی تھی جب کرونا وائرس کے دوران انہوں نے ریاست بھر میں ماسک لازمی پہننے کے احکامات کے نفاذ سے انکار کر دیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ انہیں بھی نائب صدر کے امیدوار کے طور پر زیرِ غور لائے تھے۔ لیکن رواں برس اپریل میں انہیں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ٹرمپ کی نائب صدر کی دوڑ سے باہر ہونا پڑا تھا جب ان کی ایک یادداشت میں سامنے آیا کہ انہوں ایک ’غیر تربیت یافتہ‘ کتے کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا کیوں کہ اپنے آبائی فارم پر موجود اس کتے سے وہ نفرت کرتی تھیں۔

فلوریڈا سے کانگریس کے رکن مائیکل والٹز امریکی فوج میں اسپیشل فورسز میں خدمات انجام دے چکے ہیں جب کہ نیشنل گارڈ میں کرنل بھی رہے ہیں۔ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر قانونی تارکینِ وطن کے حوالے سے پالیسی کے حامی ہیں۔ وہ یوکرین پر امریکہ کی پالیسی پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

مائیکل والٹز چین کی ایشیا پیسیفک میں سرگرمیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کو اس خطے میں ممکنہ تنازع کے حوالے سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گزشتہ مدتِ صدارت میں خدمات انجام دینے والے دو اعلیٰ عہدیداروں کے دوبارہ تقرر کر مسترد کرنے بھی باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ ان میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر نیکی ہیلی اور سابق وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو شامل ہیں۔

نکی ہیلی نے حالیہ انتخابات سے قبل ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے حصول کی دوڑ میں ٹرمپ کا مقابلہ کیا تھا جب کہ پومپیو کے ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت کا ارادہ رکھتے تھے تاہم بعد ازاں وہ اس اقدام سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بدھ کو واشنگٹن ڈی سی جا رہے ہیں جہاں وہ صدر جو بائیڈن سے ملاقات کریں گے۔ جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 کے صدارتی الیکشن میں شکست دی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ برس 20 جنوری کو صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے اس سے قبل ان کی انتظامیہ کو اختیارات کی منتقلی کا عمل شروع ہو چکا ہوگا۔

ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن ڈی سی آمد کے موقع پر امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں ’ایوانِ نمائندگان‘ میں موجود ارکان سے بھی ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply