ٹرمپ-پوٹن ملاقات کا دار و مدار روس کی سنجیدگی پر ہے: امریکی وزیرِ خارجہ

ٹرمپ-پوٹن ملاقات کا دار و مدار روس کی سنجیدگی پر ہے: امریکی وزیرِ خارجہ Leave a comment

  • روسی عہدیداروں کو بتا دیا تھا کہ دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان اُس وقت تک کوئی ملاقات نہیں ہو گی جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوجاتا کہ ملاقات کس بارے میں ہو گی: مارکو روبیو
  • صدر ٹرمپ جاننا چاہتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں: امریکی وزیرِ خارجہ
  • یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق روس کو جانچنے کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ساتھ رابطہ رکھا جائے: امریکی وزیرِ خارجہ
  • ہم نے روس سےجس واحد معاملے پر اتفاق کیا ہے وہ امن ہے، مارکو روبیو
  • صدر ٹرمپ صدر زیلنسکی سے بہت ناراض ہیں، امریکی وزیرِ خارجہ

ویب ڈیسک _ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر پوٹن کے درمیان ممکنہ ملاقات کا دار و مدار اس بات پرہے کہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کتنا سنجیدہ ہے۔

مارکو روبیو کے مطابق انہوں نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے منگل کو سعودی عرب میں ملاقات کے دوران بھی دونوں ملکوں کے صدور کی ملاقات کے بارے میں بات چیت کی تھی۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق انہوں نے روسی عہدیداروں کو بتا دیا تھا کہ دونوں ملکوں کے صدور کے درمیان اُس وقت تک ملاقات نہیں ہو سکتی جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوجاتا کہ ملاقات کس بارے میں ہو گی۔

صحافی کیتھرین ہیرج کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مارکو روبیو نے کہا کہ ان کے خیال میں جب دونوں صدور کی ملاقات ہو گی تو اس میں اسی نقطے پر بات ہو گی کہ آیا یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو کہا تھا کہ رواں ماہ کے اختتام پر شاید ان کی صدر پوٹن سے ملاقات ہو گی۔

امریکی وزیرِ خارجہ سے جب اس ضمن میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی روسی ہم منصب سے ملاقات کا وقت ان کے علم میں نہیں ہے۔

ان کے بقول صدر ٹرمپ جاننا چاہتے ہیں کہ روس یوکرین جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں۔

روس نے لگ بھگ تین برس قبل فروری 2022 میں یوکرین پر جارحانہ حملہ کیا تھا اور فریقین کے درمیان اب بھی لڑائی جاری ہے۔

جنگ کی وجہ سے ہزاروں اموات ہو چکی ہیں جب کہ یوکرین میں بڑی تعداد میں آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق روس کو جانچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس کے ساتھ رابطہ رکھا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ وہ جنگ کے خاتمے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو ماسکو سے اس کے مطالبات پوچھے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ روس سے پوچھا جائے کہ جنگ کا خاتمہ عوامی مطالبہ، کوئی نجی مطالبہ یا کچھ اور ہے۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ہم نے روس سےجس واحد معاملے پر اتفاق کیا ہے وہ امن ہے۔ ماسکو اس ضمن میں کیا آفر کرتا ہے، وہ کیا ماننا چاہتا ہے اور وہ امن کے بارے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں؟

ان کے بقول وہ فوری طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر یوکرین اور یورپین اتحادیوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں مذاکرات سے دور رکھا گیا ہے۔

تاہم مارکو روبیو کا کہنا ہے کہ امریکہ نے سب کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ یوکرین کے معاملے پر امریکہ اور روس کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان منگل کو سعودی عرب کے شہر ریاض میں ملاقات ہوئی تھی۔تاہم اس ملاقات میں یوکرین اور یورپی یونین سے کوئی بھی مدعو نہیں تھا۔

امریکہ و روس کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان اس ملاقات میں سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود اور قومی سلامتی کے مشیر مساعد بن محمد العیبان شریک تھے۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کو یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ‘بغیر الیکشن کے آنے والا آمر ‘ قرار دیا تھا۔

زیلنسکی نے ردِعمل میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ روس کی گمراہ کن معلومات کے شکنجے میں ہیں۔

‘صدر ٹرمپ بہت ناراض ہیں’

انٹرویو کے دوران مارکو روبیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ صدر زیلنسکی سے بہت ناراض ہیں۔ ان کے بقول امریکہ یوکرین کا خیال رکھتا ہے کیوں کہ اس کے نہ صرف ہمارے اتحادیوں بلکہ دنیا پر اثرات پڑتے ہیں۔ کسی سطح پر یوکرین کو کم از کم شکر گزار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے جنگ کے دوران یوکرین کو اربوں ڈالرز کی فوجی امداد دی ہے اور صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اس رقم کے بدلے امریکہ کو یوکرین کے معدنی وسائل میں سرمایہ کاری کرنی ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی کے ساتھ ایک معاہدے پر بات چیت کی تھی جب کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی گزشتہ جمعے میونخ میں اس کا ذکر کیا تھا۔

مارکو روبیو کے مطابق یوکرین پر خرچ ہونے والی رقم کا کچھ حصہ ہمیں واپس لینا ہے جس پر صدر زیلنسکی نے رضامندی بھی ظاہر کی تھی کہ وہ بھی معاہدہ چاہتے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ کے مطابق وہ صدر زیلنسکی کو بعد میں یہ کہتا دیکھ کر ناراض ہوئے کہ انہوں نے ڈیل کو مسترد کر دیا ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply