ٹرمپ اور ہیرس کی تقریروں میں چین کا ذکر داخلی خدشات کے ضمن میں کیوں نظر آتا ہے؟

ٹرمپ اور ہیرس کی تقریروں میں چین کا ذکر داخلی خدشات کے ضمن میں کیوں نظر آتا ہے؟ Leave a comment

  • امریکی ووٹر اندرونی مسائل کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں۔
  • ایک سروے کے مطابق امریکی ووٹروں کی بہت ہی معمولی تعداد خارجہ امور کو اپنے لیے تین اہم ترین مسائل میں شامل کرتی ہے۔
  • ٹرمپ نے کہا چین ہمیں تجارت کے میدان میں کئی سالوں سے شکست دے رہا ہے۔
  • کاملا ہیرس نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں گی کہ امریکہ چین سے مصنوعی ذہانت اور خلا میں مسابقت میں فتح یاب ہو۔
  • امریکی ووٹروں کی نظر میں واشنگٹن کی چین پر پالیسی ذرائع معاش اور پیداواری لاگت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
  • لیکن دنیا کے مختلف حصوں میں جاری تنازعات کے باعث چین کے بارے میں پالیسی زیر سایہ آگئی ہے۔

امریکہ میں پانچ نومبر کے الیکشن سے قبل انتخابی مہم کے آخری ہفتے میں داخلی مسائل پر بحث غالب ہے جبکہ تجزیہ کاروں کے مطابق صدارتی امیدوار نائب صدر کاملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی تقریروں میں چین کا ذکر ان گرما گرم مسائل کے حوالے سے ہی کرتے ہیں۔

کارٹر سنٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائرئکٹر لیو یاوی کہتے ہیں کہ امریکی ووٹر اندرونی مسائل کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں۔

ان کے مطابق عوامی جائزے بتاتے ہیں کہ امریکی ووٹروں کے لیے چین کی طرف سے خطرات اس وقت معیشت، امیگریشن، اسقاط حمل، آب و ہوا میں تبدیلی، جمہوریت اور دیگر مسائل سب سے پیچھے ہیں۔

“یو گو” نامی ادارے کے ایک سروے کے مطابق امریکی ووٹروں کی بہت ہی معمولی تعداد خارجہ امور کو اپنے لیے تین اہم ترین مسائل میں شامل کرتی ہے۔

سروے کے مطابق ہیرس کے حامیوں کے مقابلے میں ٹرمپ کے حامی خارجہ پالیسی کے بارے میں تھوڑی سی زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
چین اور امریکی داخلی پالیسیاں

نیویارک شہر میں 27 اکتوبر کی ایک ریلی میں ٹرمپ نے چین کا دو بار ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو امریکہ چین کو شکست دے گا۔

دوسرے تناظر میں انہوں نے کہا کہ وہ “ٹرمپ ریسی پروکل ٹریڈ ایکٹ” متعارف کریں گے جس کے تحت اگر کوئی ملک امریکی برآمدات پر 100 یا 200 فیصد ٹیکس عائد کرتا ہے تو امریکہ بھی اسی شرح سے ان ملکوں سے درآمدات پر ٹیکس عائد کرے گا۔

اسی روز ہیر یس نے کانٹے کے مقابلے کی ریاست پینسلوینیا میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں چین کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

ٹرمپ کے چین پر بیانات

ٹرمپ نے اپنے بیانات میں اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ چین کے ساتھ مسابقت کے اقتصادی اثرات کیا ہوں گے کیونکہ ان کا تعلق امریکیوں کے ذریعہ معاش سے ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے تجارت، چینی اشیا امریکی منڈی میں بھرمار اور ناجائز کاروباری طریقہ کار پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

جولائی میں ریاست آیئوا میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا چین ہمیں تجارت کے میدان میں کئی سالوں سے شکست دے رہا ہے۔

“اگر میں صدر منتخب ہوتا ہوں تو ایسا ہونا رک جائے گا۔”

جولائی میں ری پبلیکن کنونشن سے خطاب میں ٹرمپ نے چین کی کئی معاملات پر مذمت کی۔ ان میں یہ الزامات بھی شامل ہیں کہ چین گاڑیاں بنانے کے شعبے میں امریکیوں سے ان کے معاشی مواقع چھین رہا ہے اور چین تائیوان کے لیے خطرہ ہے۔

اس سے قبل اپریل میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین سے امریکہ آنے والے بہت سے افراد مردوں اور نوجوانوں کی اس عمر سے تعلق رکھتے ہیں جو عسکری لڑائی میں حصہ لے سکتے ہیں اور یہ کہ وہ شاید یہاں اس لیے آرہئے ہیں کہ امریکہ میں کوئی فوج بنا سکیں۔

ٹرمپ نے چین کا امریکہ میں نشہ آور ادویات کے حوالے سے فینٹینل کے تناظر میں بھی ذکر کیا۔

انہوں نے ریاست نیو ہیمپشئر میں کہا، “وہ ہمارے ملک میں فینٹینل جیسی نشہ آور ادویات کا سیلاب لا رہے ہیں، امریکیوں کو مار رہے ہیں۔ اس بات کو ختم ہونا چاہیے۔ اور یہ اس وقت ختم ہو جائے گا جب ہم چین کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں گے۔”

کاملا ہیرس کے چین پر بیانات

اگرچہ ہیرس نے انتخابی مہم کے دوران چین کا کم ہی ذکر کیا ہے انہوں نے اگست میں ہونے والے ڈیمو کریٹک نیشنل کنونشن میں چین پر بات کی۔

کاملا ہیرس نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں گی کہ امریکہ چین سے مصنوعی ذہانت اور خلا میں مسابقت میں فتح یاب ہو۔

وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے شعبے میں امریکہ اور چین کے درمیان باہمی انحصار اور خطرات کو کم کیا جائے تاکہ امریکہ چین کی عسکری اہلیت کو جدید خطوط پر استوار کنے میں بیجنگ کی مدد نہ کرے۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی سینئر محقق علی وائین کہتی ہیں کہ ہیرس چین کے ساتھ تقلقات کو تجارتی ٹیکس پر ہی مرکوز کرنے کی مخالفت کرتی ہیں۔

سی آئی اے کے سابق ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے ایسٹ ایشیا اور پیسیفک ڈینس ولڈر کہتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کے موقف میں اختلافات کم اور ہم آہنگی زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس الیکشن میں چین پر اس لیے بات نہیں ہوئی کیونکہ امریکی عوام اور سیاستدانوں کے نزدیک چین کا منفی تاثر پایا جاتا ہے۔

عوامی جائزوں کے مطابق چین کے بارے میں موزوں موقف دس کے ہندسے سے بھی کم ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی ووٹروں کی نظر میں واشنگٹن کی چین پر پالیسی ذرائع معاش اور پیداواری لاگت پر اثر انداز ہو سکتی ہے لیکن دنیا کے مختلف حصوں میں جاری تنازعات کے باعث چین کے بارے میں پالیسی کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔

اس سلسلے میں محقق علی وائین کہتی ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان اسٹریٹجک مسابقت امریکی ووٹروں کے نزدیک اہم ترین مسئلہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکی ووٹرز معیشت اور صحت کی دیکھ بھال کی لاگت کے بارے میں زیادہ پریشان ہیں۔

ان کے بقول ان کے خارجہ پالیسی کے امور پر خیالات پر جو عوامل اثر انداز ہو رہے ہیں ان میں روس اور یوکرین کی لڑائی اور مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کے خدشات ہیں۔

تحریر:ژاوشن ژو، وی او اے



Supply hyperlink

Leave a Reply