وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے قانون سازوں کی نواف سلام کی حمایت حزب اللہ کے لیے سیاسی جھٹکا کیوں؟

وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے قانون سازوں کی نواف سلام کی حمایت حزب اللہ کے لیے سیاسی جھٹکا کیوں؟ Leave a comment

لبنان کے قانون سازوں کی اکثریت نے نواف سلام کو، جو کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے سربراہ ہیں، ملک کا اگلا وزیر اعظم بنانے کی حمایت کر دی ہے جبکہ اس پیش رفت کو ایران کی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کے لیے ایک سیاسی جھٹکا سمجھا جا ر ہا ہے۔

حزب اللہ نے اپنے مخالفین پر الزام لگایا ہے کہ وہ تنظیم کو پس پشت ڈالنے کیلئےکام کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے “رائٹرز” کے مطابق نواف سلام کی حمایت لبنان کے فرقہ وارانہ دھڑوں کے درمیان طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی کا اظہار ہے۔

واضح رہے کہ یہ سیاسی پیش رفت ایسے تناظر میں عمل میں آئی ہے جب شیعہ فرقے کے قریب سمجھے جانے والے گروپ حزب اللہ کو گزشتہ سال اسرائیل کے ساتھ جنگ میں پہلے ہی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے علاوہ شام میں اس کے اتحادی بشار الاسد کا تختہ بھی الٹ دیا گیا ہے۔

حزب اللہ کے سینئر قانون ساز محمد رعد نے، جو وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نجیب میقاتی کو اقتدار میں رکھنا چاہتے تھے، کہا ہے کہ حزب اللہ کے مخالفین انتشار اورعدم شمولیت کی جانب کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ نے گزشتہ ہفتے جوزف عون کو صدر منتخب کر کے “اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا” لیکن انہیں معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ ہی کاٹ دیا گیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق پچھلے ہفتے امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ فوجی کمانڈر جنرل عون کا انتخاب سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کی ایک اور علامت ہے۔

اس سے قبل حزب اللہ نے لبنان کے سیاسی منظر نامے پر طویل عرصے سے فیصلہ کن غلبہ حاصل کر رکھا تھا۔

عون، جو کہ ایک میرونائٹ عیسائی ہیں، پیر کے روز پارلیمان کے 128 قانون سازوں کے ساتھ وزیر اعظم کے انتخاب پر مشاورت میں مشغول رہے۔

بطور صدر ان پر لازم ہے کہ وہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کا وزیر اعظم کے لیے انتخاب کریں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سلام نے پیر کی سہ پہر تک قانون سازوں میں سے 85 کی حمایت حاصل کر لی تھی۔

تاہم مشاورت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا۔

لبنان کے حکومتی نظام میں فرقہ وارانہ اقتدار کی تقسیم کے مطابق وزیراعظم کا سنی مسلمان ہونا ضروری ہے۔ ملک میں وضع کیا گیا نظام مذہبی وابستگی کی بنیاد پر ریاستی عہدوں کو تقسیم کرتا ہے جس کے تحت صدارت کسی میرونائٹ کرسچن کو دی جاتی ہے اور شعیہ مسلمان پارلیمنٹ کا اسپیکر کا ہوتا ہے۔

ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ حزب اللہ کا خیال ہے کہ میقاتی کے انتخاب پرسیاسی سمجھوتہ ہو گیا تھا لیکن بعد میں گروپ نے عون کو گزشتہ ہفتے منتخب کرنے پر اتفاق کیا۔

نواف سلام کا بطور وزیر اعظم نام پیش کرنے والوں میں حزب اللہ کے سنی اور عیسائی اتحادی بھی شامل تھے۔

گروپ کے ایک سنی قانون ساز فیصل کرامی نے کہا کہ انہوں نے “تبدیلی اور تجدید” کے مطالبات اور ساتھ ہی لبنان کے لیے عرب اور بین الاقوامی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے نواف سلام کو نامزد کیا ہے۔

صدر کے لیے عون کا انتخاب اور نئے وزیر اعظم کی نامزدگی لبنان کے حکومتی اداروں کی بحالی کی طرف اہم قدم ہے کیونکہ نظام حکومت دو سال سے زیادہ عرصے سے مفلوج پڑا ہے ۔ اس وقت تک ملک کے پاس نہ تو سربراہ مملکت ہے اور نہ ہی مکمل طور پر بااختیار کابینہ ہے۔

لبنان کی نئی حکومت کو بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہو گا جن میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے دوران اسرائیلی فضائی حملوں میں تباہ ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو، معیشت کی بحالی اور 2019 میں لبنان کے مالیاتی نظام کے خاتمے کی بنیادی وجوہات کے حل کے لیے اصلاحات کا آغاز کرنا شامل ہیں۔

یاد رہے کہ امریکی حمایت یافتہ فوج کے کمانڈر کے طور پر اپنے سابق کردار میں، عون نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان امریکی ثالثی میں جنگ بندی کے معاہدے کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

شرائط کے تحت لبنانی فوج کو جنوبی لبنان میں تعینات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسرائیلی فوجی اور حزب اللہ وہاں سے واپس چلے جائیں گے۔

قانون ساز رعد کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم حزب اللہ اگلے اقدامات پر عمل کرے گی، اور “قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے “سکون اور دانشمندی” کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ان اقدامات پر نظر رکھیں گےجو ملک پر قابض ہونے والوں کو لبنان کی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔

(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)



Supply hyperlink

Leave a Reply