نیتن یاہو نے غزہ جنگ ختم کرنے کا حماس کا مطالبہ مسترد کر دیا Leave a comment



اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی غزہ میں جنگ ختم کرنے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔

ایک بیان میں نیتن یاہو نے کہا، “ہمارے یرغمالوں کی رہائی کے بدلے حماس نے جنگ کے خاتمے، غزہ سے ہماری افواج کے انخلاء، تمام قاتلوں اور ریپ کرنے والوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔”

انہوں نے کہا، ”میں حماس کے شیطان صفت لوگوں کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط کو یکسر مسترد کرتا ہوں۔”

حماس نے اتوار کے روز اسرائیل پر حملے کا دفاع کیا لیکن اس نے ‘غلطیوں’ کا اعتراف کیا اور غزہ میں “اسرائیلی جارحیت” کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک اور 240 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ اب چوتھے ماہ میں داخل ہو گئی ہے۔ جنگ کا باعث بننے والے حملے کے بارے میں حماس نے اپنی پہلی عوامی رپورٹ میں کہا کہ یہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک “ضروری قدم” تھا، اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی ممکن بنانے کا ایک طریقہ تھا۔

غزہ جنگ کے دوران گزشتہ برس نومبر کے آخر میں امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت، حماس نے 100 سے زائد مغویوں کو رہا کر دیا تھا جس کے بدلے اسرائیل نے بھی اپنی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو آزاد کر دیا تھا۔

جنگ بندی کے اس معاہدے کے ختم ہونے کے بعد سے، نیتن یاہو کو اسرائیل کے اندر اور کچھ عالمی رہنماؤں کی جانب سے حماس کے قبضے میں 136 یرغمالوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

بعض رپورٹس کے مطابق مغویوں میں سے شاید چوبیس کے قریب افراد ہلاک یا مارے جا چکے ہیں۔

کچھ عالمی رہنماؤں نے، جن میں امریکہ کے صدر جو بائیڈن شامل نہیں ہیں، لڑائی میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری طرف غزہ میں اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حماس کے صحت کے حکام کے مطابق 25 ہزار فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں شہری اور عسکریت پسند دونوں شامل ہیں۔

حالیہ دنوں میں نیتن یاہو نے مشرقِ وسطیٰ میں استحکام اور اور پورے خطے میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے پھیلنے کو روکنے کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ، “میں دریائے اردن کے مغرب میں تمام علاقے پر مکمل اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔”

واضح رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور دیگر امریکی حکام نے فلسطینی ریاست کا مطالبہ کیا ہے۔

بائیڈن نے جمعے کو کہا تھا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ممکنہ حل کے بارے میں بات کی جس میں ایک غیر فوجی فلسطینی حکومت شامل ہو سکتی ہے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے فلسطینی ریاست کے بارے میں اپنا مؤقف تبدیل کرنے کے “بین الاقوامی اور اندرونی دباؤ” کو شکست دے دی ہے۔

نیتن یاہو نے کہا کہ یہ ان کے اصرار کی وجہ سے ہے کہ ایک ایسی فلسطینی رایست کے قیام سے برسوں تک بچا گیا جو اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی تھی۔

برطانیہ کے وزیرِ دفاع گرانٹ شیپس نے اتوار کو اسکائی نیوز کو بتایا کہ اسرائیل-حماس جنگ کے اختتام پر فلسطینی ریاست کے قیام پر نیتن یاہو کی مخالفت “مایوس کن” ہے۔

شیپس نے کہا، “جب تک آپ دو ریاستی حل کی پیروی نہیں کرتے، میں واقعی نہیں دیکھتا کہ کوئی دوسرا حل موجود ہے۔”

صدر بائیڈن نے جمعے کو امریکہ کے مؤقف پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا، “دو ریاستی حل کی کئی اقسام ہیں۔” اس سوال پر پر کہ کیا نیتن یاہو کے اقتدار میں دو ریاستی حل ناممکن تھا؟ بائیڈن نے جواب دیا، “نہیں، ایسا نہیں ہے۔”

اس گفتگو کے حوالے سے نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ “صدر بائیڈن کے ساتھ اپنی بات چیت میں وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اپنی پالیسی کا اعادہ کیا کہ حماس کے تباہ ہونے کے بعد اسرائیل کو غزہ پر حفاظتی کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق غزہ پر اسرائیلی کنٹرول کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ غزہ اسرائیل کے لیے مزید خطرہ نہیں بنے گا، یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فلسطینی خودمختاری کے اس مطالبے سے متصادم ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادار وں ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply