|
ویب ڈیسک _ جنوبی کوریا میں مارشل کی ناکامی کے بعد حزبِ اختلاف کی جماعتیں صدر یون سک یول سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پارلیمان کے بعض ارکان نے استعفا نہ دینے کی صورت میں صدر کے مواخذے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
جنوبی کوریا میں گزشتہ پانچ دہائیوں میں پہلی بار منگل کو ڈرامائی انداز میں مارشل لا لگایا گیا جسے چھ گھنٹے بعد ہی منسوخ کر دیا گیا۔
صدر یون سک یول نے منگل کی شب مارشل لا کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ آئین کے تحفظ کے لیے ان کے پاس اس اقدام کے سوا کوئی چاہ نہیں تھا۔
صدر یون نے مارشل لا کے نفاذ کے لیے پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔
قوم سے خطاب میں صدر یون نے اپوزیشن پر پارلیمنٹ کو کنٹرول کرنے، شمالی کوریا کے ساتھ ہمدردی رکھنے اور ریاست مخالف سرگرمیوں سے حکومت کو مفلوج کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔
صدر کے مارشل لا لگانے کے ساتھ ہی ملک کی فوج متحرک ہوئی اور اس نے پارلیمان کی عمارت کا گھیراؤ شروع کر لیا تھا۔ اس دوران ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جس میں مختلف مقامات پر سیکیورٹی اہلکاروں سے اپوزیشن کے حامی مظاہرین کی مڈ بھیڑ ہو رہی ہے۔
یون سک یول کے اعلان کے فوری بعد پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن جماعت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اپنے قانون سازوں کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ بعد ازاں 300 رکنی پارلیمان میں 190 ارکان نے مارشل لا کے خاتمے کے لیے ووٹ دیا تھا۔
جنوبی کوریا کے قانون کے تحت پارلیمنٹ میں اکثریتی ووٹ کے ذریعے مارشل لا ختم کیا جا سکتا ہے۔
پارلیمان میں 300 نشستوں میں سے 170 اپوزیشن کی مرکزی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے پاس ہیں جب کہ دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ملا کر مجموعی طور 192 ارکان اپوزیشن میں ہیں۔ حکمراں جماعت پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) کے 108 ارکان ایوان میں موجود ہیں۔ البتہ ووٹنگ کے دوران ڈیڑھ درجن حکومتی ارکان نے بھی مارشل لا کے خلاف ووٹ دیا اور اپوزیشن کا ساتھ دیا۔
ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی ویڈیوز میں ایسے فوجی اہلکاروں کو دکھایا گیا جو پارلیمنٹ میں تعینات تھے اور مارشل لا ختم کرنے کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے بعد وہاں سے چلے گئے۔
صدر کی تمام سرگرمیاں معطل
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق صدر یون سک یول نے بدھ کی صبح کے لیے طے شدہ اپنی تمام سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔
صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر کے اعلیٰ ترین مشیروں اور سیکریٹریز نے مشترکہ طور پر مستعفی ہونے کی پیشکش کی ہے۔
‘اے پی‘ کے مطابق بدھ کی صبح جنوبی کوریا میں ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دسمبر کی سردی میں معمول کی صبح ہے۔ گلیوں میں سیاحوں اور مقامی شہریوں کی چہل پہل تھی اور عام دنوں کی طرح سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں نظر آ رہا تھا۔ البتہ پارلیمان کے باہر کچھ مقامات پر مظاہرین کی بڑی تعداد ہاتھوں میں مختلف مطالبات کے کتبے تھامے موجود تھے جن کے قریب ہی کئی پولیس اہلکار بھی حفاظتی شیلڈز کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ مظاہرین صدر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جنوبی کوریا میں آئندہ برس کے بجٹ پر یون سک یول کی قدامت پسند جماعت ’پیپل پاور پارٹی‘ اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ’ڈیموکریٹک پارٹی‘ کے درمیان ڈیڈ لاک تھا۔
حالیہ عرصے میں پیپل پاور پارٹی کو اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے میں مشکلات بھی پیش آتی رہی ہیں۔
’ڈیموکریٹک پارٹی‘ نے بدھ کو مطالبہ کیا ہے کہ صدر فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوں ورنہ ان کے مواخذے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔
ایک بیان میں ڈیموکریٹک پارٹی نے کہا کہ صدر یون کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مارشل لا کے اطلاق کے لیے تقاضوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ بغاوت کی بدترین مثال ہے اور اس سے ان کے مواخذے کے لیے بہترین بنیاد بھی میسر آتی ہے۔
واضح رہے کہ صدر کے مواخذے کے لیے اپوزیشن کو پارلیمان میں دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ یعنی اپوزیشن کو 300 کے ایوان میں 200 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ اس وقت اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 192 ہے۔
صدر یون کی جماعت کے 18 ارکان نے منگل کی شب مارشل کے اقدام کے خلاف ووٹ دیا تھا۔
پیپل پاور پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہن نے بھی صدر کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔ ہان ڈونگ ہن طویل عرصے تک صدر کے وکیل بھی رہے ہیں۔
اسمبلی میں اگر صدر کے مواخذے کی کارروائی ہوتی ہے تو ان کے اختیارات اس وقت تک معطل ہو جائیں گے جب تک ملک کی آئینی عدالت ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔
مواخذے کے بعد صدر کے اختیارات معطل ہونے کی صورت میں جنوبی کوریا میں حکومت میں صدر کے بعد دوسری اہم اور طاقت ور شخصیت وزیرِ اعظم ہان ڈک سو کو تمام اختیارات منتقل ہو جائیں گے۔
جنوبی کوریا کے آئین کے مطابق صدر کو مارشل لا لگانے کا اختیار حاصل ہے۔ البتہ اس کے لیے لازم ہے کہ ملک کو کسی جنگ یا جنگی جیسی صورتِ حال کا سامنا ہو۔ یا ملک میں حالات اس طرح کے ہوں جائیں کہ ہنگامی حالات نافذ کرنے کی ضرورت ہو۔
صدر کی جانب سے مارشل لا کے نفاذ کے کے لیے فوج استعمال کی جا سکتی ہے جب کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی، اجتماع کے حق سمیت دیگر حقوق معطل کر دیے جاتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں سیاسی مبصرین اب یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ملک میں ایسی صورتِ حال موجود تھی جس کے سبب صدر نے اچانک اور غیر متوقع طور پر مارشل لا کا اعلان کیا؟
جنوبی کوریا کے آئین میں واضح ہے کہ اگر پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے یہ منظوری دے کہ مارشل لا ختم کر دیا جائے تو صدر پر لازم ہوگا کہ وہ مارشل لا اٹھا لیں گے۔
صدر یون کی جانب سے مارشل لا کی منسوخی کا امریکہ نے خیر مقدم کیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو امید ہے کہ جنوبی کوریا میں سیاسی اختلاف کو پر امن انداز میں قانون کی حکمرانی کے مطابق حل کر لیا جائے گا۔
اینٹنی بلنکن نے مزید کہا کہ امریکہ جنوبی کوریا کے عوام کی حمایت کا اعادہ کرتا ہے۔ ان کے بقول دونوں ممالک کے تعلقات جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ جنوبی کوریا میں سیاسی صورتِ حال مخدوش ہونے کے ساتھ ہی امریکہ کے سول میں سفارت خانے نے اعلان کیا تھا کہ بدھ کو امریکی شہریوں کے لیے کونسلر اپائنٹمنٹ اور ویزا کے لیے شیڈول انٹرویوز منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
امریکہ نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ جنوبی کوریا میں کسی بھی احتجاج کے قریب نہ رہیں اور حکام سے ملنے والی ہدایات پر عمل کریں۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن اس وقت افریقہ کے ملک انگولا کے دورے پر ہیں اور انہیں جنوبی کوریا کی صورتِ حال سے دورانِ سفر آگاہ کر دیا گیا ہے۔
امریکہ میں کئی قانون ساز جنوبی کوریا کی موجودہ سیاسی حالات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔