|
کوئٹہ — “میرے والد گزشتہ کئی برسوں سے اسکول میں بچوں کو پاکستان کا قومی ترانہ سکھا رہے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی بھی طرح کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں۔”
یہ کہنا ہے کہ لبنیٰ بلوچ کا جو نوشکی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے اپنے والد اسکول ٹیچر فرید احمد بادینی کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے لبنیٰ نے الزام عائد کیا کہ 13 اکتوبر کی رات دو بجے سیکیورٹی فورسز نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور میرے والد کو جبری طور پر لاپتا کر دیا۔
ماسٹر فرید احمد بادینی کون ہیں؟
ساٹھ سالہ فرید احمد بادینی کئی برسوں سے گورنمنٹ بوائز مڈل اسکول نوشکی میں ایس ایس ٹی انچارج کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
ان کی بیٹی لبنیٰ بادینی نے بتایا کہ ان کے والد ایک نہایت شریف انسان اور شفیق استاد ہیں۔ ان کا روز مرہ کا معمول گھر سے اسکول اور پھر اسکول سے گھر واپس آنا تھا۔
ان کے طالب علم بھی ہمیشہ ان سے خوش رہتے تھے اور آج بھی وہ اپنے استاد کی بازیابی کے لیے احتجاج میں شریک ہیں۔
اس سے قبل نوشکی میں ماسٹر فرید احمد بادینی کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین اور بلوچ یکجتی کمیٹی کی جانب سے ریلی نکالی گئی۔
ریلی کے شرکا نے فرید بادینی اور دیگر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے نعرہ بازی کی۔
لبنیٰ نے مزید کہا کہ “ان کے والد ریاست مخالف کسی سرگرمی میں ملوث نہیں تھے اور انہیں نہیں معلوم کہ انہیں کیوں جبری طور پر لاپتا کیا گیا۔”
لبنیٰ کے مطابق جب ان کے والد کو جبراً لاپتا کیا گیا تو ان کے چھوٹے بھائی بھی والد کے ساتھ سو رہے تھے۔ فورسز کے ہاتھوں والد کو گھسیٹتے ہوئے دیکھ کر ان کا چھوٹا بھائی شدید خوف کا شکار ہو گیا ہے۔
کیا فوجی آپریشن کی منظوری کے بعد جبری گمشدکیاں بڑھ گئی ہیں؟
بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کی جانب سے گزشتہ ماہ صوبے میں فوجی آپریشن کی منظوری کے بعد مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی حکومت نے بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد صوبے کی قوم پرست اور سیاسی جماعتیں فوجی کارروائی سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر چکی ہیں۔
پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے گزشتہ ماہ بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن کی منظوری دی تھی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی قائد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں بشمول کراچی سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران 200 سے زائد طلبہ اور عام لوگوں کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جبری گمشدگیوں کے علاوہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول گوادر اور آواران میں تین افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ تاہم ان دونوں واقعات کی تاحال سرکاری سطح پر تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی ہے۔
بلوچستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ صوبے میں پہلے وقتاً فوقتاً آپریشنز جاری ہہیں اب صرف اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے چار ہزار افراد کے کیسز مختلف کمشنز کو فراہم کیے گئے ہیں۔
تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں یہ شکوہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بلوچستان کے اس مسئلے پر زیادہ آواز بلند نہیں کر رہیں۔
ان کے بقول “ہم عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے کئی برسوں سے رابطہ کر رہے ہیں تاکہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسئلے کو اجاگر کیا جا سکے۔
تاہم ان اداروں کی جانب سے ان مسائل کے حل کے لیے جو اقدامات اٹھانے چاہیے تھے، وہ اب تک نہیں کیے جا رہے ہیں۔
‘جبری گمشدگی کے واقعات کو روکا جائے’
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی بارہا صوبے میں ماورائے عدالت گمشدگیوں کے واقعات پر آواز اٹھاتی آ رہی ہے۔
ایچ آر سی پی کے کونسل ممبر حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ “ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان طویل عرصے سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسائل کو مانیٹر کرتا آ رہا ہے۔”
حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے بقول صوبے میں ماورائے عدالت لوگوں کی گرفتاریوں کی صورتِ حال انہتائی تشویش ناک صورتِ حال اختیار کرچکی ہے۔
حکومت کا کیا مؤقف ہے؟
پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی ادارے ماضی میں یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کے نام بھی لاپتا افراد کی فہرستوں میں شامل رہے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کچھ عرصہ قبل لاپتا افراد کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو تنظیمیں یہ دعویٰ کر رہی ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنے دعوے کو ثابت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص لاپتا ہوا بھی ہے تو اس سلسلے میں ایک کمیشن کام کر رہا ہے اور ہر ماہ اس کمیشن کا اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں لاپتا افراد کے کیسز کا اندراج ہوتا ہے۔
اُن کے بقول اگر تنظیم کے پاس اس دعوے کے شواہد ہیں تو وہ لاپتا افراد کمیشن کو پیش کریں تاکہ ان افراد کو تلاش کرنے کے لیے کوششیں عمل میں لائی جائیں۔
لاپتا افراد کی تنظیم کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے برعکس پاکستان کی وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اب تک صرف دو ہزار افراد لاپتا ہیں۔
حکومت کے مطابق لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن میں 10 ہزار افراد کے لواحقین نے درخواستیں دے رکھی تھی جن میں سے آٹھ ہزار افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں پاکستان کی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ “لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومتی سنجیدگی میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ چار دہائیوں پر میحط ہے اس لیے اس کا فوری حل بھی ممکن نہیں ہے اس معاملے پر اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ادھر لاپتا افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اگر ان کے پیاروں پر ریاست مخالف الزامات موجود ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔
نوشکی سے مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے ماسٹر فرید احمد بادینی کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ اگر انہیں فی الفور بازیاب نہیں کیا گیا تو وہ نوشکی میں غیر معینہ مدت تک احتجاجی دھرنا دیں گے۔