مچھ میں راکٹ حملے:بی ایل اے کا ذمہ داری کا دعویٰ Leave a comment



بلوچستان کے بولان کے علاقے مچھ میں عسکریت پسندوں نے راکٹ حملے کیے ہیں۔ صوبائی نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی نے ان حملوں کی تصدیق کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ کسی طرح کا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلوچ لبریشن آرمی نے حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔

اسی اثنا میں مچھ لیویز نے بتایا ہے کہ قومی شاہراہ بند کر کے کوئٹہ جانے والی ٹریفک کو ڈھاڈر شہر کے قریب روک لیا گیا۔

مچھ لیویز ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ واقعے میں ایک پولیس اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔

بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ایکس پر واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مچھ واقعہ میں سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے تین مربوط حملے ناکام بنا دئیے ہیں۔

جان اچکزئی نے کہا ہے کہ خوش قسمتی سے واقعے میں کسی تنصیب کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ دہشت گرد پیچھے ہٹ چکے ہیں اور سیکورٹی فورسز ان کا تعاقب کررہی ہیں صبح تک تمام خطرات سے نمٹ لیں گے۔

بلوچستان میں حکام نے بتایا کہ مچھ شہر پر راکٹ حملوں کے واقعے کے بعد کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ میں تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ اور کسی جانی نقصان سے بچنے کے لیے کوئٹہ آنے والی ٹریفک کو ڈھاڈر کے مقام پر روک لیا گیا ہے۔

دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق مچھ حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ مچھ حملے مجید بریگیڈ ، اسپیشل ٹیکنیکل آپریشنز اسکواڈ اور انٹیلیجنس ونگ نے حصہ لیا ہے۔

بی ایل اے کے آفیشل میڈیا سیل سے جاری بیان میں تنظیم کے ترجمان جیئند بلوچ نے کہا ہے کہ مچھ بولان اور مضافاتی علاقوں میں بلوچ عوام گھروں سے نہ نکلیں اور شاہراہوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی غیر مصدقہ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ متعدد گاڑیوں کو آگ لگی ہے اور باوردی افراد اس جگہ پر موجود ہیں۔

حکام کے مطابق یہ واقعہ پیر کی شب تقریباً رات 10 بجے کے قریب پیش آیا۔لیویز فورس نے اس واقعے میں مزید تفصیلات تاحال جاری نہیں کی ہیں۔

مچھ بلوچستان کے کچھی کی ایک تحصیل ہے جو درہ بولان کے کنارے واقع ہے۔ یہاں ملک کی دوسری بڑی جیل ہے۔ مچھ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ سے تقریباً 65 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش کان کنی سے منسلک ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply