|
ویب ڈیسک – بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی بدھ سے امریکہ کا دو روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں اور اس دورے سے متعلق نئی دہلی کے حکام پرامید ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مضبوط شراکت داری کی نئی شروعات ہو گی۔
وزیرِ اعظم مودی فرانس میں مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے بعد بدھ کو امریکہ پہنچیں گے جہاں ان کی ملاقات صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گی۔
بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا ہے کہ بھارت اور امریکہ میں پائیدار تعلقات ہیں اور یہ ہماری مضبوط ترین بین الاقوامی شراکت داریوں میں سے ایک ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ تجارت اور امیگریشن میں متنازع معاملات تعلقات کے تعین پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کیوں کہ یہ دونوں معاملات امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل ہیں۔
مبصرین کے مطابق امریکہ اور بھارت دونوں کے لیے تجارت کا معاملہ اہم ہے۔ نئی دہلی پہلے ہی ایسے اقدامات کر چکا ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ صدر ٹرمپ کے خدشات کو دور کرنے کے لیے تیار ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی وزیرِ اعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی اور دو طرفہ منصفانہ تجارت کی طرف بڑھنے پر زور دیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے تجارت کے حوالے سے اعلیٰ ترین مشیر اور نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر کیون ہیسٹ کا پیر کو نشریاتی ادارے ’سی این بی سی‘ کو ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ بھارت میں ٹیرف بہت زیادہ ہیں۔ زیادہ ڈیوٹی عائد ہونے کی وجہ سے امریکی برآمدات محدود ہو جاتی ہیں۔
نئی دہلی واشنگٹن کے ساتھ تجارتی کشیدگی سے بچنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے رواں ماہ کے آغاز میں بعض امریکی مصنوعات پر عائد ٹیکس کم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ ایسا ہونے سے امریکہ کے برآمد کنندگان کو فائدہ ہوگا جن میں اعلیٰ درجے کی موٹرسائیکلیں اور کاریں بنانے والے شامل ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی واشنگٹن کو مزید رعایت کی پیشکش بھی کر سکتا ہے جس سے امریکی مصنوعات بھارتی مارکیٹ میں پہنچ سکتی ہیں اور توانائی سے متعلق امریکی مصنوعات کی بھارتی مارکیٹ میں درآمد کو فروغ مل سکتا ہے۔
بھارتی تھنک ٹینک ’کالنگا اسکول آف انڈو پیسفک اسٹڈیز‘ کے بانی چنتامنی مہاپاترا کا کہنا ہےکہ بھارت نے پہلے قدم اٹھانے کے بارے میں سوچا اور تجارت کے حوالے سے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن صدر ٹرمپ ایک بہترین مذاکرات کار اور سودے بازی کرنے والے ہیں اس لیے وہ مزید کا تقاضا کریں گے۔
چنتامنی مہاپاترا کے مطابق بھارت بھی اچھے انداز میں بھاؤ تاؤ کرنے والا ہے۔ اس لیے امید ہے کہ ایسا سمجھوتا ہوگا جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو۔
تجارتی معاملے میں واشنگٹن کے مقابلے میں دہلی کا کافی کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے کیوں کہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2023 میں لگ بھگ 118 ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہوئی تھی جس میں بھارت کی برآمدات کا حصہ 32 ارب ڈالر زیادہ تھا۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ میں درآمدات پر اب تک جو ٹیرف یا ڈیوٹی عائد کی ہے بھارت اس سے محفوظ رہا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ میں اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر رواں ہفتے عائد کیے گئے 25 فی صد ٹیرف سے بھارت پر معمولی اثر پڑے گا۔
نئی دہلی میں حکام کے مطابق بھارت امریکہ کو اسٹیل کا ایک چھوٹا برآمد کنندہ ملک ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی اور دفاعی امور کو بھی زیرِ بحث لایا جائے گا۔
مبصرین کے مطابق صدر ٹرمپ اور وزیرِ اعظم مودی کے درمیان ملاقات میں ممکنہ طور پر مختلف ہتھیاروں کی فروخت اور ٹیکنالوجی برآمد کرنے کے حوالے سے تبادلۂٔ خیال کیا جائے گا۔
بھارت عسکری آلات درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کو اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ہتھیاروں کے متعدد نظام درکار ہیں۔ بھارت عسکری آلات اور ہتھیاروں کے لیے روایتی طور پر روس پر انحصار کرتا تھا۔ لیکن اب وہ روس کے مقابلے میں فرانس، اسرائیل اور امریکہ سے ہتھیاروں کی زیادہ خریداری کر رہا ہے۔
نئی دہلی کے ایک دفاعی تجزیہ کار راہل بھیدی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو کسی حد تک خدشات ہیں کہ نئی دہلی سیکیورٹی کے حوالے سے اس سے خریداری کم کر رہا ہے۔ اس لیے وہ گزشتہ چند برس سے بھارت پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ اس سے دفاعی آلات کا حصول بڑھائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگی جہازوں، بحریہ کے لیے نگرانی کرنے والے طیاروں سمیت دیگر طیاروں کے انجن اور عسکری گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا جائے۔
دونوں ملکوں کے درمیان امیگریشن بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ اس معاملے پر بھی بھارت امریکہ سے تعاون کر رہا ہے اور پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ غیرقانونی تارکینِ وطن کو واپس لینے کے لیے تیار ہے۔
مودی کے واشنگٹن دورے میں ہونے والی بات چیت میں بھارتی ہنرمند افراد اور امریکی جامعات میں بھارتی طلبہ کے داخلوں کو آسان بنانا ممکنہ طور پر ترجیح میں شامل ہوگا۔
امریکہ کے ایچ ون بی ویزا سے استفادہ کرنے والوں میں بھارتی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ویزے کی اس قسم سے وہ افراد امریکہ آ سکتے ہیں جو کسی خاص فیلڈ میں مہارت رکھتے ہوں۔ بھارت کے ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اس ویزے سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔
بھارت کے وزیرِ خارجہ جے شنکر قانون سازوں سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ دونوں ممالک کے عوام میں روابط بھارت کے امریکہ کے ساتھ گہرے تعلقات کی بنیاد ہیں۔
بھارت سے روانگی سے قبل وزیرِ اعظم مودی نے ایک بیان میں صدر ٹرمپ سے ہونے والی ملاقات کو ان کی پہلی مدِ صدارت میں کامیابیوں کو آگے بڑھانے کا موقع قرار دیا تھا۔
مبصرین کے مطابق چین کے جارحانہ اقدامات بھی دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا سبب ہیں۔
بھارت اس وقت جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ کے ہمراہ کواڈ گروپ کا رکن ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ گروپ بحر الکاہل میں سیکیورٹی کے حوالے سے بنایا گیا گروپ ہے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں ممالک جیو اسٹرٹیجک معاملات پر بھی متفق ہیں۔
بھارتی تھنک ٹینک ’کالنگا اسکول آف انڈو پیسفک اسٹڈیز‘ کے بانی چنتامنی مہاپاترا کا کہنا تھا کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں کواڈ کو فعال کیا۔ اس سے قبل یہ گروپ دس برس تک غیر فعال تھا۔ اسے فعال کرنے میں ان کا ہی کردار تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ وہ معاملہ ہے جہاں دونوں ممالک کے لیے کئی مشترک امور ہیں جس میں بحرالکاہل کے خطے میں قیامِ امن، استحکام اور ترقی میں شراکت کے مواقع شامل ہیں۔