|
ویب ڈیسک _ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ پاناما کینال خطرے کی زد میں آنے کی صورت میں امریکہ اس کے تحفظ کا پابند ہے۔
مارکو روبیو نے جمعرات کو کیربیئن ملک ڈومینیکن ری پبلک کے دارالحکومت سانتو ڈومنگو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ایسے زون پر راہداری فیس ادا کرنا پڑے گی جس کی حفاظت ہم تنازعات کے وقت میں کرنے کے پابند ہیں۔
مارکو روبیو نے یہ بیان ایک ایسے موقع پر دیا ہے جب بدھ کو ہی امریکی محکمۂ خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاناما کی حکومت نے پاناما کینال سے گزرنے والے امریکی سرکاری بحری جہازوں سے فیس نہ لینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
تاہم پاناما کینال کا انتظام سنبھالنے والی ‘پاناما کینال اتھارٹی’ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اتھارٹی نے امریکہ کو ایسی کوئی رعایت دینے پر تاحال اتفاق نہیں کیا ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اتوار کو پاناما کے دورے کے موقع پر صدر ہوزے اور پاناما اتھارٹی کے حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
واضح رہے کہ مارکو روبیو وسطی امریکہ اور کیربیئن کے پانچ ملکی دورے پر ہیں اور ڈومینیکن ری پبلکن ان کا آخری اسٹاپ ہے۔ ان کے دورے کا مقصد غیر قانونی نقل مکانی اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے سمیت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔
جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارکو روبیو نے کہا کہ وہ پاناما کی منتخب حکومت کا احترام کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ قانون کے مطابق طریقہ کار پر عمل کرنے کی پابند ہے۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے امریکہ اور پاناماکے درمیان 1977 میں پاناما کینال پر ہونے والے معاہدے کا حوالہ بھی دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں پاناما سے توقعات تھیں اور وہ بات چیت کے دوران واضح طور پر اس بارے میں سمجھ گئے ہوں گے۔
ان کے بقول “امریکی مسلح افواج خصوصاً امریکی نیوی معاہدے کے نفاذ کی پابند ہے۔”
مارکو روبیو نے کہا کہ امریکہ ایک پرامن حل پر عمل چاہتا ہے۔
دوسری جانب پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ جمعے کی شام صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکہ اور پاناما کے درمیان اس وقت تنازع کی وجہ بننے والی پاناما کینال بحرِ اوقیانوس (اٹلانٹک) اور بحر الکاہل (پیسیفک) کو ملانے کے لیے بنائی گئی آبی گزرگاہ ہے جسے امریکہ کے تعاون سے بنایا گیا تھا۔ اس کینال سے گزرنے والے جہازوں سے پاناما فیس وصول کرتا ہے۔
امریکہ اور پاناما کے درمیان 1977 میں اس آبی گزرگاہ سے متعلق معاہدہ ہوا تھا۔ بعدازاں امریکہ نے 1999 میں اس کینال کا کنٹرول پاناما کے سپرد کر دیا تھا۔
اس کینال کی نگرانی ایک خود مختار سرکاری ادارے ’پاناما کینال اتھارٹی‘ کے پاس ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینال کے استعمال کی فیس پر تنقید کر چکے ہیں اور انہوں نے کینال کو پاناما کے حوالے کرنے کے فیصلے کو ’احمقانہ‘ قرار دیا تھا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں۔