|
جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان نے 26 نومبر کے احتجاج کے دوران اپنے حامیوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی عدالتی تحقیقات اور کارکنوں کی رہائی نہ ہونے کی صورت میں اس ماہ 14 دسمبر ملک گیر سول نا فر مانی کی تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔
سوشل میڈیا ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام کے مطابق خان نے مطالبہ کیا کہ 26 نومبر کے مظاہرے پر حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران ان کے کم از کم 12 حامیوں کی ہلاکت کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے۔
انہوں نے دارالحکومت اسلام آباد میں جمع ہونے والے لوگوں کو اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے “پرامن” مظاہرین قرار دیا۔
پیغام میں عمران خان نے اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ 13 دسمبر کو پشاور میں “شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک عظیم الشان اجتماع” کے لیے جمع ہوں۔ یہ شہر صوبہ خیبر پختو نخوا کا دارالحکومت ہے جہاں خان کی پی ٹی آئی پارٹی برسر اقتدار ہے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ گزشتہ سال مئی میں ملک گیر مظاہروں کے دوران ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف پولیس کے پرتشدد حملوں کی تحقیقات کرائی جائے جس کے دوران بقول انکے متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔
انہوں نے حکومت مخالف احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے اپنی پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔
عمران خان نے، جنہیں پاکستان کا مقبول ترین سیاستدان کہا جاتا ہے اور جو گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں، انتباہ کیا، “اگر یہ دونوں مطالبات پورے نہ کیے گئے تو 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جائے گی، اور حکومت کسی بھی نتائج کی ذمہ دار ہو گی۔”
پی ٹی آئی کے بانی نے کہا کہ اس سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کارکن اب بھی لاپتہ ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی حکومت کی جانب سے خان کی دھمکی پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت نے پی ٹی آئی کو سڑکوں پر پُرتشدد پر احتجاج کرنے کے خلاف بارہا تنبیہ کی ہے۔
حکومت نے گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے زیرقیادت احتجاجی مارچ کے دوران کسی بھی ہلاکت کی مسلسل تردید کی ہے۔
بشریٰ بی بی کی چار سدہ میں تاج الدین کے ورثاسے ملاقات
اسی اثنا میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ وہ فرار اختیار کرنے والی والی خاتون نہیں ہیں خاص طور پر خان کے نام پر نکلنے والوں کو وہ اکیلا نہیں چھوڑ سکتیں۔
جمعے کو چارسدہ میں گفتگو کرتے ہوئے بشریٰ بی بی نے کہا کہ “شہادتوں کی وجہ سے میں تکلیف میں تھی۔ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ لوگ غلط اور جھوٹ کیوں بول رہے ہیں۔”
بشریٰ بی بی نے چارسدہ میں ، تاج الدین کے ورثا سے ملاقات کی جو مبینہ طور پر تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ “ڈی چوک پر میں بالکل اکیلی تھی اور میں وہاں سے نہیں ہٹی تھی۔ سب نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا تھا۔۔” بقول انکے جب میں وہ وہاں سے نہیں گئیں تو پراہ راست انکی گاڑی پر فائرنگ ہوئی۔
واضح رہے کہ حکومت اسلام آباد احتجاج کے دوران فائرنگ کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے دوران حکومتی کریک ڈاؤن میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔
حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے “آتشیں اسلحہ” کا استعمال نہیں کیا بلکہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
تاہم، حکومت نے تقریباً 1,000 مظاہرین کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
سرکاری اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ 9 مئی 2023 کو ہونے والے مظاہروں کے دوران خان کے حامیوں نے فوجی تنصیبات سمیت اہم سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی تھی۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے ان الزامات کو سیاسی محرک کے طور پر لگائے گئے الزامات قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
تازہ ترین عدالتی کارروائی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے جمعرات کو عمران خان پر فوج کے خلاف گزشتہ سال 9 مئی کے حملوں کی مبینہ طور پر ہدایت دینے پر فرد جرم عائد کی۔
ان الزامات کے جواب میں 72 سالہ خان اور ان کا دفاع کرنے والوں نے بے قصور ہونے کی استدعا کی ہے۔
واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے اس کیس کی سماعت طلب اڈیالہ جیل میں کی اور فرد جرم کا اعلان کیا۔ اڈیالہ جیل اسلام آباد کے قریب ایک حراستی مرکز ہے، جہاں 2018 سے 2022 تک وزیراعظم رہنے والے عمران خان اگست 2023 سے قید ہیں۔
خان کو پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی طرف سے لائے گئے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کی طرف سے وفاقی ہائی کورٹ میں اس ہفتے پیش کی گئی معلومات کے مطابق بر طرفی کی بعد خان کے خلاف 188 کی حیران کن تعداد میں ریاستی حمایت یافتہ مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
خان کو جن قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں بغاوت، دہشت گردی، قتل اور بدعنوانی کے الزامات شامل ہیں۔
معزول پاکستانی وزیر اعظم کا دعویٰ ہے کہ یہ من گھڑت الزامات ہیں جن کا مقصد طاقتور فوج کے کہنے پر سیاست میں ان کی واپسی کو روکنا ہے۔
حکومت اور فوجی حکام نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
عمران خان کے دفاع میں دائر کی گئی اپیلوں کے جواب میں عدالتوں نے ثبوت کی کمی یا مقدمے قائم کرنے میں عدم شفافیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو دی گئی تمام سزاؤں کو منسوخ یا معطل کر دیا ہے۔
تاہم، حکام نے خان کو ہر بار عدالتی ضمانت ملنے پران کے خلاف نئے الزامات لگا کر ان کی رہائی کو روک رکھا ہے۔
عمران خان ایک سابق کرکٹ اسٹارہیں اور ان کی وزارت عظمی سے برطرفی سے 24 کروڑ کی آبادی پر مشتمل جنوبی ایشیائی ملک کو سیاسی انتشار کا سامنا ہے۔
پاکستان کے 1947 میں آزاد ہونے کے بعد سے فوج نے منتخب حکومتوں کے خلاف تین بغاوتیں کی ہیں جن کے نتیجے میں تین دہائیوں سے زیادہ آعرصے تک فوجی حکومتیں اقتدار میں رہی ہیں۔
خان سمیت ممتاز قومی سیاست دانوں نے حالیہ برسوں میں فوجی جرنیلوں پر کھلم کھلا الزام لگایا ہے کہ جب وہ اقتدار میں نہیں ہوتے تو وہ منتخب حکومتوں پر اثر انداز ہو تے ہیں اور فوج کی مداخلت کو چیلنج کرنے والے وزرائے اعظم کو ہٹانے کا منصوبے بناتے ہیں۔
عام طور پر “اسٹیبلشمنٹ” کے حوالے سے مراد پاکستانی فوج اور اس کی انٹیلیجنس ایجنسیاں ہوتی ہیں جو اس نوعیت کےالزامات کی تردید کرتی ہیں۔