|
کراچی — پاکستان کی حکومت نے مزید آٹھ نجی پاوو پلانٹس (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے ہیں جس سے قومی خزانے کو 238 ارب روپے بجت کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی پانچ آئی پی پیز سے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے یکسر ختم کرنے سے جہاں سرمایہ کاروں کو منفی پیغام جا رہا ہے وہیں ان اقدامات سے بجلی کی قیمتوں میں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بجلی کے شعبے کے نقصانات کا ازالہ محض بجلی کی قیمتیں بڑھا کر پورا کرنے کی پالیسی نے بعض مخصوص افراد کو فائدہ پہنچایا جب کہ عوام اور ملک کو اس کا نقصان ہوا۔
دوسری جانب بجلی کا ترسیلی نظام انتہائی بوسیدہ ہونے کے باعث لائن لاسز میں اضافہ، بجلی چوری اور بجلی کے بلوں کی ریکوری کم ہونے اور جنریشن و ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے بڑے نقصانات کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔
نجی بجلی گھروں سے متعلق پالیسی میں نقائص بجلی مہنگی ہونے کا سبب
اسلام آباد میں مقیم ماہر توانائی عابد انوار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نوے کی دہائی میں نجی بجلی گھر قائم کرنے کی سرمایہ کار دوست پالیسی اپنائی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد تو ملک میں بجلی کے بحران کا خاتمہ اور اس میں سرکاری کے بجائے نجی شعبے کو آگے لانا تھا۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس پالیسی کا فائدہ چند خاندانوں کو پہنچا اور نقصان ملک بھر نے اٹھایا۔
نجی بجلی گھر قائم کر کے ایسے گروہوں کو زبردست منافع پہنچایا گیا اور بجلی کی خریدار حکومت بن گئی یعنی دوسرے الفاظ میں ہر قسم کے نقصانات کی ذمہ داری حکومت نے اپنے سر لے لی۔
یوں گزشتہ تین دہائیوں میں انتہائی بااثر اور امیر ترین افراد نے نجی بجلی گھر قائم کیے، معاہدوں کی رُو سے امریکی ڈالرز میں خوب منافع کمایا گیا۔
‘چینی سرمایہ کاری سے بجلی سستی ہونے کے بجائے مہنگی ہوئی’
عابد انوار کے مطابق اس پالیسی کے تحت چینی سرمایہ کار بڑی تیزی سے پاکستان میں آئے اور سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) کے تحت ایک درجن کے قریب بڑے بجلی گھر قائم کیے گئے اور انہیں بھی دیگر مقامی سرمایہ کاروں کے ہمراہ شان دار منافع کی پیش کش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ 15 سال میں سب سے زیادہ چین نے بجلی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور دو دہائیوں میں پاکستان میں کوئلہ، سولر پاور پلانٹ اور پن بجلی کے بیشتر منصوبے بیجنگ کے تعاون سے لگائے گئے۔
بظاہر تو اس بڑی سرمایہ کاری کا مقصد پاکستان کے بجلی کے بحران کا خاتمہ کرنا تھا اور عوام کو سستی، معیاری اور مسلسل بجلی کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔
عابد انوار کے بقول بجلی کا تعطل کسی حد تک دور کرنے میں یہ سرمایہ کاری کامیاب بھی رہی لیکن اس کے لیے مہنگے سودے کیے گئے اور پالیسی نقائص کی وجہ سے چند برسوں بعد ہی اس کے نتائج سامنے آنے لگے۔
‘پاکستانی روپے کی قدر گرنے سے مہنگی بجلی مزید مہنگی ہو گئی’
عابد انوار نے بتایا کہ یہ نقصانات اس وقت مزید گھمبیر شکل میں سامنے آنے لگے جب گزشتہ تین برسوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں لگ بھگ 38 فی صد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی صورت میں بجلی کے کارخانے کی لاگت سمیت دیگر اخراجات بھی بڑھ گئے۔ سب سے بڑھ کر پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں کا بڑا انحصار درآمد شدہ ایندھن پر ہے جو ڈالر مہنگا ہونے کے باعث مزید مہنگا ہو گیا۔ یوں بجلی کی قیمت عام صارف ہی نہیں بلکہ صنعتوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت ہوتی چلی گئی۔
آٹھ سالوں میں بجلی کی قیمتوں میں 100 فی صد سے بھی زائد اضافہ
ایک حالیہ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف گزشتہ آٹھ برسوں میں بجلی کی اوسط قیمت میں 116 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ صرف جولائی 2023 سے اگست 2024 کے درمیان پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں 14 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ قیمتوں میں بار بار ہونے والے ان اضافوں نے صارفین پر 455 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا۔
قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ مارچ میں ہوا اور یہ اضافہ سات روپے چھ پیسے فی یونٹ کا تھا۔ جب کہ آخری اضافہ اگست میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے سامنے آیا جس میں بجلی کے نرخوں میں مزید دو روپے 56 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا گیا تھا۔
ریسرچ کے مطابق قیمتوں میں یہ اضافہ پاکستانی شہریوں کے لیے خاصی پریشانی کا باعث بن رہا ہے جو زندگی گزارنے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
کیا کیپیسی پیمنٹس ہی بجلی کے شعبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے؟
کئی ماہرین توانائی اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کی منصوبہ بندی میں پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نہیں ہے۔
ان کے بقول نجی بجلی گھروں کی صلاحیت کی ادائیگی یعنی کیپیسٹی پیمنٹ واقعی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی کُل رقم تقریباً 18 روپے فی کلو واٹ بنتی ہے۔
بجلی کے بلوں پر اصل مسئلہ 40 سے 45 فی صد اس رقم کا ہے جو بجلی کے ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔
‘بجلی مہنگی ہونے کی ذمہ داری چینی کمپنیوں پر عائد کرنا درست نہیں’
ماہر توانائی سعد شہزاد کے مطابق حکومت خود آئی پی پیز میں 50 فی صد سے زیادہ براہ راست حصص رکھتی ہے۔ خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بننے والے بجلی گھروں میں حکومت کے بڑے شئیرز ہیں اور یوں حکومت بطور مالک، خود ہی زیادہ تر نجی بجلی گھروں کے کیپیسٹی پیمنٹس وصول بھی کر رہی ہے۔
ماہر توانائی کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ بجلی گھر بنانے والی چینی کمپنیوں کو پاکستان ہی کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور انہیں محفوظ منافع کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی سرمایہ کاروں نے اس وقت پاکستان کا رخ کیا جب پالیسی ناکامیوں کی وجہ سے زیادہ تر سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیا تھا۔
سعد شہزاد کے بقول توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ حکومت کی بہت بڑی نااہلی ہے، لیکن اس کے لیے اس کا بل صارفین سے وصول کیا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں روپے کی قدر میں بڑی کمی، کرنٹ اکاونٹ خسارہ زیادہ ہونے کے باعث ادائیگیوں پر بھی بہت بڑا اور منفی اثر پڑا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے بجلی گھروں کو چلانے کے لیے میرٹ آرڈر کی بہت کم پیروی کی جا رہی ہے۔
آگے کا راستہ کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیپیسٹی پیمنٹس کے حل کے لیے بات چیت کے ساتھ حکومت کو آئی پی پیز کے قرض کو طویل مدت کے لیے ری پروفائل کرنے اور بجلی پر ٹیکس کم کرنا ہوں گے۔
ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ وہ چینی آئی پی پیز سمیت تمام نجی کارخانوں سے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے معاہدوں میں ترامیم کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ اس سے قبل بھی پانچ ایسی کمپنیوں سے بجلی خریداری کا معاہدہ ختم کیا گیا ہے جو بہت ہی کم پیداوار دے رہے تھے۔
وزارتِ توانائی کے مطابق حکومت کی جانب سے بجلی کے شعبے میں جامع اصلاحات کے لیے کام جاری ہے اور اس کے تحت بجلی چوری روکنے، بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے، ٹرانسمیشن لاسز کم کرنے اور ریکوری بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔