|
اسلام آباد — مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل پر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے دستخط نہ ہونے کے بعد حکومت اور جمیعت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) کے درمیان اختلاف شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس بل کی صدر سے توثیق نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کا عندیہ تھا جس کے بعد حکومت اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ ہفتے اس معاملے پر گفت و شنید کے لیے ان سے کئی ملاقاتیں کیں۔
حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، سینیٹر فیصل واؤڈا، رانا ثنااللہ نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں کیں جب کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی ان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ لیکن حکومتی کوششوں کے باجود مولانا فضل الرحمان قائل نہیں ہوئے اور احتجاج کا عندیہ دے چکے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی ایف سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد پیر کو حکومت نے علما کا ایک اجلاس بلایا جس میں مدارس کی رجسٹریشن کے موجودہ نظام کے حق میں قرار داد منظور کی گئی۔
اس اجلاس کے بعد فضل الرحمان کی جانب سے پیر کو ردِ عمل سامنے آیا جس کے بعد امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن پر شروع ہونے والا یہ تنازع پاکستان کی سیاسی کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔
حکومت اور جے یو آئی کے درمیان اس بل پر ہونے والے اختلاف کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
قانون سازی کا پس منظر؟
رواں برس اکتوبر میں 26ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے دوتہائی اکثریت کے لیے حکومت کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے ارکان کی حمایت درکار تھی۔ اس کے لیے صدر پاکستان، وزیر اعظم، حکومتی وزرا اور چیئرمین پیپلزپارٹی کو مسلسل مولانا فضل الرحمان کے گھر پر چکر لگانے پڑے۔
مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترمیمی بل میں سود کے نظام کے خاتمے سمیت اپنی تجاویز شامل کرانے کے علاوہ دینی مدارس کی محکمۂ تعلیم کے بجائے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا بل منظور کرانے کا مطالبہ بھی حکومت سے تسلیم کرایا۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی منظور کیا گیا اور 21 اکتوبر کو اسے دستخط کے لیے صدر کو بھیج دیا گیا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے 26ویں آئینی ترامیمی بل پر اسی دن دستخط کر دیے اور بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا۔ لیکن مدارس کی رجسٹریشن کے ترمیمی بل پر صدر پاکستان نے اعتراضات کے باعث دستخط نہیں کیے۔
صدر کے دستخط نہ ہونے کے باعث مدارس بل قانون کی شکل اختیار نہیں کر پایا ہے۔ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد صدر پاکستان کے دستخط سے کوئی بل قانون یا ایکٹ آف پارلیمنٹ بنتا ہے۔
ایوان صدر کی جانب سے اس مسئلے پر کوئی باضابطہ وضاحت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر پاکستان نے بعض آئینی نوعیت کے اعتراضات کے باعث مدارس بل پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق صدر سمجھتے ہیں کے 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے اور پارلیمنٹ اس سلسلے میں پورے ملک کے لیے قانون سازی نہیں کرسکتی جب کہ مدارس بل میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ صرف اسلام آباد کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پر ایک بار پھر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں لگنے اور جی ایس پی پلس، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں سے ممکنہ طور پر ردعمل کے خدشے کی وجہ سے یہ قانون منظور نہیں کیا جارہا۔
یہ اعتراض پہلے کیوں نہیں اٹھائے گئے؟
کسی بھی بل پر قانون سازی کے لیے اسے پہلے کابینہ میں پیش کرکے اس کی مںظوری لینا لازمی ہوتا ہے۔ کابینہ کی منظوری سے قبل ترمیمی بل کو وزارتِ قانون اور کابینہ کی قانون سازی سے متعلق کمیٹی سے گزارا جاتا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مدارس بل پر جو اعتراضات اس وقت اٹھائے جارہے ہیں کیا وہ اس وقت حکومت کے سامنے نہیں تھے؟ اور اگر ایسا تھا تو کیا یہ بل صرف اس لیے منظور کرایا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں حائل رکاوٹیں دور ہوں؟
جمعیت علما اسلام کا موقف ہے کے پارلیمنٹ سے بل منظور کرکے روکنا بدنیتی ہے، مدارس رجسٹریشن بل کو مسترد کرکے طبل جنگ بجا دیا گیا ہے۔ بل مسترد کرنا پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین کے چہرے پر زوردار طمانچہ ہے۔
جے یو آئی بل منظور نہ ہونے کے لیے صدر کے ساتھ ساتھ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی ذمے دار قرار دیتی ہے۔
مدارس کی رجسٹریشن کا موجودہ نظام
پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن اور مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا معاملہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاہم آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد 2014 میں اتفاق رائے سے طے پانے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس میں تیزی آئی لیکن ابھی تک اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔
ماہرین کے مطابق برطانوی دور سے مدارس کی رجسٹریشن سوسائٹی ایکٹ کے تحت کی جاتی رہی ہے۔ تاہم پرویز مشرف اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں مدارس میں اصلاحات پر بات چیت ہوئی لیکن معاملہ تنازعات کا شکار رہا۔ 2016 اور 2019 میں اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کے درمیان معاہدے ہوئے۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں طے پانے والے معاہدے میں وزارتِ تعلیم کے ماتحت مذہبی ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے۔
ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم کے ڈی جی سابق میجر جنرل غلام قمر کا کہنا ہے کہ مدارس کو محکمۂ تعلیم سے منسلک کرنے کے لیے کابینہ نے منظوری دی تھی۔ 2019 میں حکومت اور تمام علماء کرام کے درمیان معاہدہ طے پایا تھا۔
ڈائریکٹوریٹ مذہبی تعلیم کے تحت مدارس کی رجسٹریشن میں صرف دو ہفتے کا وقت لگتا ہے اور اس وقت تک 18600 مدارس کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے۔ مدارس اپنی تفصیلات ڈائریکٹوریٹ کو فراہم کرتے ہیں جس کے لیے 16 ریجنل ڈائریکٹوریٹ کام کر رہے ہیں۔
جے یو آئی کے بل میں نیا کیا ہے؟
جے یو آئی ایف نے پی ٹی آئی دورِ حکومت میں علما اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں مدارس کو وزارتِ تعلیم کے ماتحت کرنے کی مخالفت کی تھی۔
اپریل 2023 میں عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد بھی جے یو آئی نے مدارس کے متعلق ترمیمی بل لانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے کامیابی نہیں مل سکی۔
مولانا فضل الرحمان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وقت بھی ترمیمی بل کی منظوری کچھ قوتوں کی جانب سے رکوائی گئی تھی۔
البتہ اکتوبر 2024 میں 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ ساتھ مدارس کی رجسٹریشن کے متعلق جے یو آئی کی شرائط کے مطابق سوسائٹی ایکٹ میں ترمیمی بل منظور کیا گیا۔
اس بل میں 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔
اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔
اس بل میں شامل شق کے مطابق ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نفاذ سے قبل قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں چھ ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانا ہوگی۔ اسی طرح اس بل کے نفاذ کے بعد قائم ہونے والے مدارس کو رجسٹریشن کے لیے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔
بل میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے، آڈیٹر سے اپنے مالی حسابات کا آڈٹ کرانے کا پابند کرنے جیسی شقیں بھی اس بل میں شامل ہے۔
اس بل کے مطابق کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔
بل میں ہر مدرسے کو اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند بھی کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت رجسٹرڈ ہونے والے مدارس کو کسی دوسرے قانون یا ادارے کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حکومت کیا چاہتی ہے؟
پیر کے روز حکومت کی جانب سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کا اجلاس بلایا جس میں مولانا فضل الرحمان کی جانب سے منظور کرائے گئے مدارس بل کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ہے۔
اس قرار داد میں مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک رکھنے کے مطالبہ کیا گیا اور کئی علما نے وفاقی وزرا کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان پر تنقید بھی کی ہے۔
حافظ طاہر محمود اشرفی کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد میں موجودہ نظام مدارس کو برقرار رکھنے اور کسی بھی صورت ڈی جی آر ای کے نظام کو ختم نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ مدارس کو نظام تعلیم سے ہی وابستہ رکھا جائے حکومت کو کسی بھی پریشر میں اس نظام کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ختم کرنا چاہیے۔ اس نظام سے لاکھوں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے لہٰذا ان طلبہ کے مستقبل سے نہ کھیلا جائے۔
مولانا فضل الرحمان کا ردِ عمل
وفاقی وزرا اور علما کے اجلاس کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس پر جی یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سخت ردعمل دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی۔ علما کے مقابلے میں علما کو لایا جارہا ہے۔ حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہم ان علما کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ دینی مدارس کے حقوق کی جنگ تمام مدارس اور علما کے لیے لڑ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم ریاست سے تصادم نہیں بلکہ رجسٹریشن چاہتے ہیں۔ مدارس کے حوالے سے 2004 میں بھی قانون سازی ہوئی تھی۔ 2019 میں ایک نئے نظام کے لیے محض ایک معاہدہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں۔ حکومت اور ادارے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی شرائط چھپانے کے بجائے قوم کے سامنے لے کر آئیں۔
انہوں نے کارکنوں کو مدارس بل پر اسلام آباد مارچ کے لیے تیار رہنے کی بھی ہدایت کی ہے۔
اب کیا ہوسکتا ہے؟
عرصہ دراز سے مذہبی جماعتوں اور مدارس کو کور کرنے والے رپورٹر اور سینئر صحافی سبوخ سید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر 24 ہزار کے قریب مدارس رجسٹرڈ ہیں جن میں 18400 مدارس محکمہ تعلیم اور باقی مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدارس کے علما کہتے رہے ہیں کے مدارس سے وابستہ طلبہ کی تعداد 45 سے 50 لاکھ تک ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق مدارس بل کے مسئلے کا درمیانی حل نکالنے پر بات کی جا رہی ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر مولانا کے بیانات اور ممکنہ احتجاج سے کچھ عرصے کے لیے سیاسی درجۂ حرارت بڑھے گا۔
ان کے بقول اس سے حکومت کا بھی یہ فائدہ ہوگا کہ اصل عوامی ایشوز اور عمران خان کی حکومت مخالف تحریک دبی رہے گی۔
سبوخ سید نے کہا کہ اس وقت حکومت کے ساتھ 10 مدارس بورڈ ہیں اور مولانا کے ساتھ پانچ مدارس بورڈ ہیں۔
ان کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے بھی مولانا کے بل کی حمایت آسان نہیں ہے کیوں کے 2019 کا معاہدہ اسی کی حکومت میں ہوا تھا۔
جے یو آئی کی جانب سے اس معاملے پر احتجاج یا مظاہروں سے متعلق سوال پر سبوخ سید کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے راستا نکالنے کو ترجیح دیں گے۔