فوجی ترجمان کا طلبہ سے خطاب اور فوج مخالف نعرے؛ ‘ مباحثے کا حصہ بنیں لیکن بدتمیزی نہ کریں’

فوجی ترجمان کا طلبہ سے خطاب اور فوج مخالف نعرے؛ ‘ مباحثے کا حصہ بنیں لیکن بدتمیزی نہ کریں’ Leave a comment

  • پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو لمز اور ہفتے کو این سی اے میں طلبہ سے خطاب کیا۔
  • جمعے کو طلبہ کے ایک گروپ نے فوجی ترجمان کے ساتھ ہونے والی خصوصی نشست کا بائیکاٹ کیا اور ہال کے باہر فوج مخالف نعرے بازی کی۔
  • معاشرے میں اختلافِ رائے کے لیے شائستگی کا عنصر ختم ہوتا جا رہا ہے، مبصرین
  • سیشنز کا مقصد ہوتا ہے کہ طلبہ فوجی قیادت سے دلیل و منطق کے ساتھ سوالات کریں، مباحثے کا حصہ بنیں لیکن بدتمیزی نہ کریں: دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز
  • گفتو شنید مسائل کے حل کا ایک راستہ ہوتا ہے جس میں کسی کی شکست یا کامیابی نہیں ہوتی: تجزیہ کار
  • فوج نظام چلانے کے الزامات پر پسِ پردہ رہ کر بات کر سکتی ہے، افواجِ پاکستان کا یہ کام نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں میں جائیں اور یہ کام کریں: افتخار احمد

لاہور _ نجی تعلیمی ادارے لاہور انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے بعض طلبہ نے جمعے کو کیمپس میں اُس وقت فوج کے خلاف نعرے بازی کی جب پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ وہاں خطاب کر رہے تھے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری فوج کے پروگرام ‘انٹریکٹ وِد اسٹوڈنٹس’ کے تحت لاہور میں قائم لمز گئے تھے جب کہ اسی طرح کی ایک تقریب ہفتے کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں بھی منعقد ہوئی ہے۔

اطلاعات کے مطابق لمز میں طلبا و طالبات کے ایک گروپ نے فوجی ترجمان کے ساتھ ہونے والی خصوصی نشست کا بائیکاٹ کیا اور اُس ہال کے باہر نعرے بازی شروع کر دی جہاں اِس نشست کا اہتمام کیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر دستیاب بعض ویڈیوز میں طلبہ کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ پاکستان کے مبینہ خراب حالات کا ذمے دار فوج کو قرار دے رہے تھے۔

ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نعرے لگوانے والے کا منہ اپنے ساتھیوں کی طرف ہے جب کہ اُس کے نعروں کا جواب دینے والوں کے چہرے نظر نہیں آ رہے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں لمز کے طلبہ سے بات کی تو اُنہوں نے مذکورہ واقعہ کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔ جب ادارے کی ویب سائٹ پر موجود لمز انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا تو ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔

لمز کے ایک اُستاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو لمز بزنس اسکول کی انتظامیہ نے مدعو کیا تھا اور جس مقام پر طلبہ نعرے بازی کی وہ شعبہ سوشل سائنسز کے باہر ہال ہے۔

تاہم سیکورٹی اداروں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو بھجوائی گئی خبر میں کہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کے لمز آمد پر اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیااور خصوصی نشست کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبہ کے مختلف سوالات کے مدلل اور مؤثر جوابات دیے۔

سیکیورٹی اداروں کی خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے طلبہ کے ساتھ پاکستان کی اندرونی و بیرونی سیکیورٹی صورتِ حال سمیت مختلف موضوعات پر بھی مفصل گفتگو کی۔

یہ پہلا واقعہ نہیں جب کسی اعلٰی فوجی افسر نے نجی تعلیمی ادارے لمز میں طلبہ سے خطاب کیا ہو اور اُنہیں ایسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

اِس سے قبل فوج کے سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف لمز کے طلبہ سے خطاب کیا تھا تو انہیں طلبہ کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اِسی طرح ماضی میں سابق نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو بھی لمز میں طلبہ کے ساتھ خصوصی نشست کے موقع پر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ معاشرے میں اختلافِ رائے کے لیے شائستگی کا عنصر ختم ہوتا جا رہا ہے۔نوجوان نسل اور خاص طور پر طلبہ کی ایسی ذہن سازی ہوئی ہے کہ وہ کسی مباحثے کا حصہ بننے کے بجائے فتح یا شکست تصور کرنے لگتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خاص قسم کی ذہن سازی ہے جو کہ پاکستان کے نوجوانوں کی گئی ہے تا کہ وہ فوج اور فوجی حکام پر تنقید کر سکیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ فوجی افسران ایک طے شدہ پروگرام کے تحت مختلف تعلیمی اداروں میں جا کر طلبہ سے بات کرتے ہیں تا کہ اُن کے ذہنوں میں موجود شکوک وشبہات کو بات چیت کے ذریعے ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سیشنز کا مقصد ہوتا ہے کہ طلبہ فوجی قیادت سے دلیل و منطق کے ساتھ سوالات کریں، مباحثے کا حصہ بنیں لیکن بدتمیزی نہ کریں۔

تجزیہ کار اور کالم نویس افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوان نسل کی جو ذہن سازی آج ہوئی ہے اُس کی بہت زیادہ ذمہ دار ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ہیں۔ اُن کا کام تھا کہ وہ اِس ذہن سازی کے راستے میں رکارٹ ڈالنے کے لیے مثبت طریقہ اپناتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو ملک کے مسائل سے بخوبی آگہی ہونی چاہیے اور یہ اُن کا آئینی حق بھی ہے لیکن سوالات سے قبل انہیں اُن سوالات کی وجوہات کا علم بھی ہونا چاہیے۔

افتخار احمد کے مطابق گفتو شنید مسائل کے حل کا ایک راستہ ہوتا ہے۔ جس میں کسی کی شکست یا کامیابی نہیں ہوتی۔ تاہم افواجِ پاکستان کا یہ کام نہیں کہ وہ تعلیمی اداروں میں جائیں اور یہ کام کریں۔

واضح رہے کہ پاکستان فوج پر سیاست میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے جب کہ فوجی ترجمان بارہا کہتے رہے ہیں کہ ان کا کوئی فیورٹ نہیں اور وہ سیاست سے دور ہیں۔

افتخار احمد کہتے ہیں فوج نظام چلانے کے الزامات پر پسِ پردہ رہ کر بات کر سکتی ہے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ طلبہ سوال کے متبادل سوال کو بھی دیکھیں اور اُن میں متبادل سوالات سننے کی برداشت نہیں اور وہ سوالات کے جواب میں ایک ہی جواب سننا چاہیں تو ایسی گفتگو سے اچھے نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔

سینئر صحافی کے مطابق کہ اُنہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو دیکھا ہے جس میں ایک طالبہ اُن سے سوال کر رہی تھیں لیکن وہ تمام سوالات ایک منفی ذہن کی عکاسی کر رہے تھے اور وہ طالبہ کچھ بھی سیکھنا نہیں چاہتی تھی۔

ان کے بقول فوج کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹیں تاکہ ایک ایسا ماحول جنم لے جس میں طلبہ کے سوالات کا جواب فوجی ترجمان کے بجائے سیاسی جماعتوں کے قائدین دیں اور اس معاملے پر کھل کر گفتگو ہونی چاہیے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply