|
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ ریاض ممکنہ طور پر واشنگٹن کے ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق ایک بڑا معاہدہ طے نہ ہونے کے باوجود کچھ دو طرفہ معاہدوں پر “کافی تیزی سے” پیش رفت کر سکتا ہے ۔
سعودی عرب گزشتہ سال سے امریکہ کے ساتھ کسی دفاعی معاہدے کے ساتھ ساتھ سویلین نیوکلیئر پروگرام میں معاونت کے لیے سخت سودے بازی کر رہا ہے۔
اس بڑے معاہدے کے ایک حصے کے طور پرسعودی حکومت اسرائیل کو پہلی بار تسلیم کر ے گی ۔
گزشتہ ماہ ڈی فیکٹو حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔
وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے جمعرات کو اس بات کا اعادہ کیا کہ “جب تک فلسطینی ریاست کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک تعلقات معمول پر لانے پر بات چیت نہیں ہو سکتی “۔
لیکن ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو فورم کے ایک سیشن کے دوران، انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر شعبوں میں معاہدوں پر جلد پیش رفت ہو سکتی ہے ۔
شہزادہ فیصل نے کہا کہ در اصل ہم امریکہ کے ساتھ متعدد دو طرفہ معاہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
ان کے الفاظ، “ان میں سے کچھ پر ہم شاید بہت تیزی سے پیش رفت کر سکتے ہیں ، اور کچھ پر ہم کام کر رہے ہیں — خاص طور پر وہ جو تجارت، آرٹیفیشل انٹیلیجینس ، وغیرہ سے متعلق ہیں – جن میں کوئی تیسرا فریق شامل نہیں ہے ۔ “
انہوں نے کہا کہ دفاعی تعاون کے کچھ اہم معاہدے بہت زیادہ پیچیدہ ہیں۔
“ہم یقینی طور پر موجودہ انتظامیہ کی مدت سے پہلے انہیں ختم کرنے کے موقع کا خیرمقدم کریں گے، لیکن اس کا انحصار دوسرے عوامل ہر ہے جو ہمارے کنٹرول سے باہر ہیں۔”
شہزادہ فیصل نے یہ بھی کہا کہ امریکہ میں اگلے ہفتے ہونے والے صدارتی انتخابات کے فاتح کے حوالے سے ریاض کی کوئی ترجیح نہیں ہے ۔
“ظاہر ہے، ہم صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ کے ساتھ پہلے کام کر چکے ہیں، اس لیے ہم انھیں جانتے ہیں، اور ہم ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے کام کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔”
“لیکن ظاہر ہے کہ پم اس ٹیم کو بھی جانتے ہیں جو فی الحال بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ نائب صدر (کاملا) ہیرس اس ٹیم کا حصہ ہیں، اور ہم ایک بہت مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ تو اس لیے ہماری قطعی طور پر کوئی ترجیح نہیں ہے ۔”
انہوں نے مزید کہا: “وہ یقیناً مختلف ہوں گے، آیا ان میں سے کوئی ایک یا دوسرا بہتر ہوگا، میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔”
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔