|
اگر آپ دن بھر ک کرنے کام کے بعد شدید بھوک کے ساتھ گھر واپسی پر امریکہ کے کسی بڑے شہر کی ہائی وے پر ٹریفک میں پھنسے ہیں تو کیا کریں گے؟ کیا آپ کھانے کے لیے قریب کے فاسٹ فوڈ ریستوران جاکر پیٹ بھریں گے یا اسے خرید کر راستے میں کھانے کا فیصلہ کریں گے؟ یا پھر ایک دو گھنٹے کے بعدنارمل شوگر اور نارمل بلڈ پریشر کے ساتھ گھر واپس پہنچ کر ہی کھانے کو ترجیح دیں گے؟
حال ہی میں جاری کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں ٹریفک کے باعث طویل تاخیر سے لوگوں میں کسی جگہ رک کر کھانا خریدنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اکثر لوگ فاسٹ فوڈ کا رخ کرتے ہیں ۔
ریسرچ کیا بتاتی ہے؟
تحقیق کی مصنفہ ، بیکا ٹیلر، جو یونیورسٹی آف الی نوے کے زراعت اور کنزیومر اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، کہتی ہیں کہ لاس اینجلس کاونٹی میں لوگوں کے ٹریفک میں پھنسنے سے فاسٹ فوڈ ریستوران جانے میں ایک فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کہ سالانہ 12 لاکھ کی تعداد بنتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق لوگوں کا اس طرح خوراک کے معیار پر اکثر سمجھوتہ کرنا مہنگا پڑ سکتا ہے اور اس سے لاس اینجلس اور نیویارک جیسے شہروں اور واشنگٹن ایریا جیسے میٹروپولیٹن علاقوں کے رہائشیوں کی صحت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ورجینیا میں سینٹارا ناردرن میڈیکل سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد نیر کہتے ہیں کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں ٹریفک میں تاخیر زندگی کی ایک حقیقت ہے اور اس کی وجہ سے لوگ زیادہ فاسٹ فوڈ کھا رہے ہیں جوایک تشویش ناک رجحان ہے۔
“لاس اینجیلس ہائی وے پر دو گھنٹے کام کے لیے جانے اور دو گھنٹے واپسی پر صرف ہونا ایک بڑی حقیقت ہے جس کا لوگوں کے طرز زندگی پر اثر ہوتا ہے۔ اور میڈیکل سائنس کے مطابق اگر لوگ گھر دیر سےپہنچ کر کھانا کھاتے ہیں اور جلد ہی سو جاتے ہیں تو یہ ایک بہت ہی غیر صحت مند رجحان ہے کیونکہ کھانے کو ہضم کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔”
جہاں تک فاسٹ فوڈ کا روزانہ کھانا ہے تو ڈاکٹر نیر کے مطابق یہ بیماری کا نسخہ ہے۔
“فاسٹ فوڈ آیٹمز میں عام طور پر زیادہ نمک ہوتا ہے۔ اس طرح کی غذا تو اتر سے کھانے سے بلڈ پریشر میں اضافہ، دل کے امراض میں مبتلا ہونا، گردوں کے فیل ہونے جیسے خطرناک اثرات ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے بلکہ یہ عام ہے۔”
وہ کہتے ہیں کہ فاسٹ فوڈ میں عام طور پر بہت زیادہ چکنائی استعمال ہوتی ، میٹھے کا تناسب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور کاربوریٹس بھی زیادہ ہوتے ہیں تو اس کے ہر روز یا معمول کا حصہ بنانے سے ذیابیطس بھی ایک معمول کی خرابی ہے۔ اس کے علاوہ فائبر کم ہونے کی وجہ سے بہت سی فاسٹ فوڈ قبض اور معدے میں گیس کا باعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹر نیر نے کہا”فاسٹ فوڈ کے اثرات ڈرامائی طور پر دیکھے گئے ہیں۔ نیند کا کم ہو جانا اور موٹاپے کی صورت میں جوڑوں کا درد بڑھ جانا بھی عام طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ حتی کہ جدید تحقیق بتاتی ہے کہ جسم کا وزن زیادہ ہونے سے پارکنسنز کا مرض اور سوجن کی وجہ سے کینسر ہونے کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔”
ڈاکٹر نیر کے مطابق بچوں کو خاص طور پر فاسٹ فوڈ کی عادت سے بچانا چاہیے جبکہ آجکل کے دور میں چکنائی سے بھرپور خوراک کے ہاضمے کے لیے ورزش اور پیدل چلنے کی عادات میں بھی کمی آرہی ہے۔
یہ سارے مسائل، ان کے مطابق، انسان میں چڑچڑا پن پید ا کرتے ہیں۔
“لہذا فاسٹ فوڈ کو عادت بنانے سے روکنا زندگی کا اہم حصہ ہونا چاہیے اور لوگ اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لاکر ہی اس کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔”
مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں کہ لوگ اپنا لنچ گھر سے اگر لے کر جائیں تو وہ بہت سے تکلیفوں سے بچ جائیں گے ۔ اسی طرح اگر الیکٹرانک آلات پر مرکوز زندگی کے اس دور میں ہلکی پھلکی ورزش کو روزانہ کی سرگرمی بنایا جائے تو انسان اپنی صحت کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
“لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ روزانہ برگر کھائیں اور کہیں کہ ورزش سے سب حساب برابر ہو جائے گا۔”
تیز رفتارزندگی اور ٹریفک سے پیدا ہونے والے صحت کے مسئلے سے خود کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
سلینہ رحیم لاس اینجلس شہر میں صحت کے سنٹر” برائٹ کیئر گروپ ” میں مارکیٹنگ اور آوٹ ریچ کی ڈائریکٹر ہیں جنہیں ہر روز اپنے کام کے سلسلے میں اپنی گاڑی میں کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
“میرے خیال میں سب سے اہم بات یہ ہےکہ آپ کو اپنے ساتھ اگر روایتی کھانا نہیں تو کم از کم ایسی غذا رکھنی چاہیے جو آپ کے انرجی کی ضرورت پوری کرےاور آ پ کو فاسٹ فوڈ کی جانب نہ جانا پڑے۔”
مثال کے طور پر وہ کہتی ہیں کہ وہ ہر صبح کام کے لیے نکلنے سےقبل اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ان کے پاس پورا دن گذارنے کے لیے اخروٹ اور بادام جیسے خشک میوے یا معیاری اسنیکس ہوں تاکہ ٹریفک میں بہت زیادہ وقت گذارنے کی صورت میں وہ کچھ نہ کچھ کھا سکیں۔
“اس طرح میں کم از کم اپنا کام اس سوچ کے ساتھ جاری رکھ سکتی ہوں کہ میرے پاس کو کھانے کو کچھ ہے۔ وہ کچھ پھل بھی اپنی گاڑی میں رکھتی ہیں۔”
صحت کے شعبے سے منسلک پاکستانی امریکی ماہر سلینہ رحیم کہتی ہیں کہ کئی سال پہلے وہ فاسٹ فوڈ خاص طور پر برگر بڑے شوق سے کھاتی تھیں۔
“اب بھی برگر اگر سامنے رکھا ہو تو اسے نہ کھانا ایک امتحان ہوتا ہے ۔ لیکن بہتر صحت کی خاطر میں نے اپنے طرز خوراک میں تبدیلی لائی اور اب میں صرف پروٹین سے بھرپور اور مناسب میٹھے والی چیز یں کھاتی ہوں۔ مثال کے طورپر سلاد اور مچھلی۔”
“مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم مضبوط ارادہ کریں اورخوراک کےپلان کے تحت دن گزاریں تو مصروف اور تیز زندگی کے چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے ہمیں اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔”