‘فائنل کال’ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

‘فائنل کال’ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ Leave a comment

لاہور _ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد میں اپنے حالیہ احتجاج کو ‘فائنل کال’ کا نام دیا تھا لیکن احتجاج کے شروع ہونے سے لے کر اچانک ختم ہونے تک بطور جماعت پی ٹی آئی تنقید کی زد میں رہی ہے۔

پی ٹی آئی ماضی قریب میں تین مرتبہ اسلام آباد، دو مرتبہ لاہور، صوابی، مردان، تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز اور پورے ملک میں تین مرتبہ احتجاج کی کال دے چکی ہے۔ اِن تمام احتجاجوں میں ایک بات قدرے مشترک پائی گئی ہے کہ ماسوائے دو تین چہروں کے پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کسی بھی جلسے یا احتجاج میں نظر نہیں آئی۔ جس کے باعث جماعت کے کارکنوں میں غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔

ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی ‘فائنل کال’ کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے پاس عمران خان کی رہائی اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے اب کون سے آپشنز بچے ہیں؟

کیا پی ٹی آئی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے قانونی راستہ اختیار کرے گی؟ کیا پی ٹی آئی کارکنوں کو دوبارہ منظم کرے گی؟ کیا پی ٹی آئی اسٹریٹ ایجیٹیشن (گلی گلی احتجاج) کی طرف جائے گی؟ کیا پی ٹی آئی دوبارہ پہلے سے زیادہ شدت سے احتجاج اور جلسے کرے گی؟ یا وہ مذاکرات کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گی؟

ان سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی کے اراکیین اور ماہرین سے بات کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ مستقبل میں اُن کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

سیاسی جدوجہد

صوبہ خیبر پختوبخوا سے پاکستان تحریکِ انصاف کے سینیٹر اور مرکزی رہنما بیرسٹر سیف علی خان سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس اب بھی بہت آپشنز ہیں۔ ان کے بقول، چوں کہ یہ ایک سیاسی تحریک ہے اور سیاسی تحریکیں کسی بھی ایک واقعے سے ختم نہیں ہوتیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اسے پورے ملک میں سیاسی حمایت بھی حاصل ہے۔

عمران خان کی رہائی کے لیے فائنل کال جیسے نعرے کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ حالیہ احتجاج ‘فائنل کال’ عمران خان کے کہنے پر کیا گیا تھا، یہ تو ہو گیا۔ اُس کے بعد ایک سیاسی جماعت سیاسی اور جمہوری انداز میں ہی اقدامات کر سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے صوبۂ سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کے پاس تمام آپشنز کھلے ہیں لیکن پی ٹی آئی اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے گی اور آپشنز کو مستقبل میں وقت اور حالات کے مطابق استعمال کر سکتی ہے۔

ان کے مطابق ‘فائنل کال’ کے بعد پی ٹی آئی مسلسل مشاورت کے عمل سے گزر رہی ہے اور تمام قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو ڈی چوک پر احتجاج کے لیے ‘فائنل کال’ دی تھی۔ اس احتجاج کی قیادت عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کر رہے تھے۔

بشریٰ بی بی کی قیادت میں پی ٹی آئی کا قافلہ رکاوٹیں عبور کرتا ہوا 26 نومبر تک ڈی چوک پہنچ گیا تھا لیکن پولیس اور رینجرز کے ‘آپریشن’ کے بعد مظاہرین کو اسلام آباد سے واپس ہونا پڑا تھا۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ فورسز کے آپریشن میں متعدد کارکن ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم وفاقی وزیرِ اطلاعات یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ احتجاج کے دوران کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والا غیر سرکاری ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ جب تک لوگ پی ٹی آئی کی قیادت کی آواز پر ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہیں، اس طرح کے احتجاج ہوتے رہیں گے۔

مذاکرات کا راستہ

احمد بلال سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کی طرف جانا چاہیے اور اگر وہ مذاکرات نہ بھی کریں تو کم از کم ایوان کے اندر اپنی پوری موجودگی کا احساس دلائیں اور تمام کارروائیوں میں پوری طرح شرکت کریں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اسمبلی کا اجلاس نہیں بھی بلاتی تو پی ٹی آئی خود اجلاس بلوا لے۔ پی ٹی آئی کے پاس اتنی بڑی تعداد ہے کہ حکومت خود اِن سے بات کرے گی۔

بیرسٹر سیف کہتے ہیں پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کے لیے اسلام آباد آئے تھے۔ اُنہیں احتجاج کرنے دیتے جب کارکن بیٹھ جاتے تو مذاکرات شروع ہو سکتے تھے اور مذاکرات کی تجویز بھی پی ٹی آئی نے ہی دی تھی۔

ان کے بقول، حکومت نے مذاکرات پر اتفاق کیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کی جانب سے تین تین ارکان مذاکراتی ٹیم میں شامل ہوں گے۔ جو تمام مسائل پر بات چیت کریں گے۔

اِس سوال کا جواب دیتے ہوئےحلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ لیکن صرف بامعنیٰ مذاکرات چاہتے ہیں اور اِس کے لیے اُن کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ مذاکرات صرف اُنہی سے کریں گے جن کے پاس اصل طاقت ہے۔

وزیرِ اعظم کے سیاسی مشیر رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو بات چیت کے لیے سیاسی جماعتوں کے پاس ہی آنا ہو گا۔

کیا پی ٹی آئی اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرے گی؟

پی ٹی آئی کے بیرسٹر سیف علی خان بتاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملیاں وقت کے ساتھ بنتی بھی ہیں اور تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے بقول، سیاسی جدوجہد میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمتِ عملی بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

پلڈاٹ کے صدر احمد بالا محبوب سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام قیادت کو بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ پوری جماعت صرف ایک آدمی پر انحصار نہیں کرنا چاہیے، جو اپنی مرضی سے فیصلہ کر کے اعلان کر دے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہی بات شاہ محمود قریشی اور چند لوگوں نے مودبانہ انداز میں کہی تھی کہ “یار اُن سے بھی پوچھ لیا کرو”۔ ان کے بقول، عمران خان نے بغیر کسی تیاری کے اپنی طرف سے احتجاج کی تاریخ دی تھی۔

حلیم عادل شیخ بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی بہترین حکمتِ عملی کے تحت چل رہی ہے۔ وہ سیاسی لوگ ہیں اور پی ٹی آئی کی سیاسی حکمتِ عملی آٹھ فروری کو سامنے آ چکی ہے۔

مشیرِ اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج بھی کرے گی اور جلسے جلوس بھی ہوں گے۔

کیا پی ٹی آئی قانونی لڑائی لڑے گی؟

بیرسٹر سیف کے مطابق پی ٹی آئی ایک پر امن سیاسی جماعت ہے اور وہ پُر امن جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔ ان کے بقول، مطالبات کے لیے قانونی اور عدالتی راستہ اختیار کیا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرے گی جس کی اجازت آئین، قانون اور جمہوریت کے دائرہ کار کے تحت ہو۔

ڈی چوک پہنچنے سے متعلق بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ہر مارچ میں کارکنوں کا اپنا ایک جوش اور ایک مومینٹم ہوتا ہے جب پی ٹی آئی کا احتجاجی جلوس اسلام آباد میں داخل ہوا تو کارکن کہیں اور احتجاج کے لیے نہیں مانے اور وہ ڈی چوک کی طرف بڑھنے لگے۔

بشرٰی بی بی اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پی ٹی آئی کا قافلہ جب پشاور سے روانہ ہوا تھا تو حکومتی اراکین خاص طور پر وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی اور وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناءاللہ کی پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، اسد قیصر اور دیگر قیادت سے بات چیت کی باتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔

اِس دوران پی ٹی آئی قیادت کو فوری طور پر عمران خان سے ملاقات کی اجازت بھی دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی قیادت کے بقول عمران خان نے سنگجانی کے مقام پر احتجاج کرنے کی حامی بھر لی تھی۔

‘فائنل کال’ کی ناکامی کا ذمے دار کون؟

فائنل کال کی ناکامی کے سوال پر بیرسٹر سیف نے کہا کہ پی ٹی آئی کا احتجاج ناکام نہیں ہوا بلکہ وہ لوگ ناکام ہوئے ہیں جنہوں نے ریاستی طاقت کو عام لوگوں کے خلاف استعمال کیا۔ جنہوں نے رینجرز کو پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کر کے گولیاں چلوائیں لیکن اس عمل میں پی ٹی آئی سرخرو ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ اُنہیں ریاست نے اپنے جبر سے منتشر کیا۔ کارکنوں نے اپنا خون بہا کر یہ ثابت کر دیا کہ یہ جابر اور ظالم حکومت ہے۔

بیرسٹر سیف کہتے ہیں کہ پارٹی کے کسی عہدیدار نے کوئی غلطی کی ہے یا کسی ذمہ دار نے کوئی کوتاہی کی ہے تو جماعت کا اپنا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت اُس کے خلاف کارروائی ہو گی۔

حلیم عادل شیخ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے بعد مرکزی قائدین شیخ وقاص اکرم، عمر ایوب، اسد قیصر سمیت دیگر قیادت، صوبائی صدور اور سیاسی کمیٹی کے اراکین ایک دوسرے پر الزامات نہیں لگا رہے بلکہ کچھ اِکا دُکا ایم این ایز شہرت کی خاطر ایسا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے خاتمے کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ یہ بندوق، زور اور لوگوں کے مارنے، خون خرابے اور گاڑیاں جلانے سے ختم ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکن دورانِ احتجاج نہتے تھے کسی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا۔

کیا بشریٰ بی بی کے خلاف بھی کارروائی ہو گی؟

بشریٰ بی بی کی جانب سے احتجاج کی قیادت اور پھر اچانک ریلی سے چلے جانے سے متعلق سوال پر بیرسٹر سیف نے کہا کہ بشرٰی بی بی ہوں یا کوئی اور، اگر کسی نے کوئی غلطی کی ہے تو جماعت اُس کے خلاف اپنا لائحہ عمل بنائے گی۔

اُنہوں نے کہا کہ جماعت کے اندر بہت سے لوگ اِس سوال پر بات کر رہے ہیں۔ یہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ جس پر کام کیا جا رہا ہے۔

حلیم عادل شیخ کے مطابق بشریٰ بی بی نے احتجاج سے متعلق عمران خان کا صرف پیغام دیا تھا۔ ساری جماعت اُن کا احترام کرتی ہے۔



Supply hyperlink

Leave a Reply