غزہ میں پانی کی فراہمی پر اسرائیلی پابندی ‘قتل عام’ کے مترادف ہے، ہیومن رائٹس واچ، اسرائیل کی تردید

غزہ میں پانی کی فراہمی پر اسرائیلی پابندی ‘قتل عام’ کے مترادف ہے، ہیومن رائٹس واچ، اسرائیل کی تردید Leave a comment

  • ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں پانی کی فراہمی کو منظم طریقے سے محدود کر کے اور اسے ہدف بنا کر ہزاروں فلسطینیوں کی موت کا باعث بن رہا ہے۔
  • اسرائیل نے ان الزامات کی یہ کہہ کر سختی سے تردید کی ہے کہ اس کی جنگ غزہ کے شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔
  • اسرائیل کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 میں حماس کا اسرائیل پر حملہ جس نے جنگ کو جنم دیا، ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر مہلک ترین حملہ ہے اور یہ “نسل کشی” کے مترادف ہے۔
  • امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ہیومن رائٹس واچ کے اس الزام سے اتفاق نہیں کرتا کہ اسرائیل نے غزہ کے پٹی پر پانی کی فراہمی کے انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچا کر “نسل کشی کی کارروائیاں” کی ہیں۔
  • ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر غزہ کے چھ میں سے چار گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس کو چلانے والے سولر پینلز کو تباہ کر دیا اور پانی کا ایک اہم ذخیرہ تباہ کر دیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں پانی کی فراہمی کو منظم طریقے سے محدود کر کے اور اسے ہدف بنا کر ہزاروں فلسطینیوں کی موت کا باعث بن رہا ہے اور اس کی یہ مہم “نسل کشی کی کارروائیوں” کے مترادف ہے۔

اسرائیل نے ان الزامات کی یہ کہہ کر سختی سے تردید کی ہے کہ اس کی جنگ غزہ کے شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔

ہیومن رائٹس واچ ان ناقدین میں تازہ ترین اضافہ ہے، جنہوں نے اسرائیل پر غزہ کی جنگ میں “نسل کشی کی کارروائیوں” کے ارتکاب کا الزام لگایا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل اور اس کی فوج نے 1948 کے “نسل کشی کنونشن” کی خلاف ورزی کی ہے جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جس کنونشن کا حوالہ دیا تھا اس میں نسل کشی سے مراد “کسی قوم، نسلی یا مذہبی گروپ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جانے والی کارروائیاں” ہیں۔

جمعرات کو جاری کی گئی اپنی نئی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں پانی اور بجلی کے بہاؤ کو جان بوجھ کر بند کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور ضروری سامان کی تقسیم کو روکنے ایک سال سے زائد عرصے کے دوران کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں لاتعداد شیر خوار، بچے اور بالغ افراد غذائی قلت، پانی کی کمی اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

نیویارک میں قائم واچ نے کہا، “ایک ریاستی پالیسی کے طور پر، یہ کارروائیاں شہری آبادی کے خلاف کیا جانے والا ایک وسیع یا منظم حملہ ہے۔ اس لیے اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف قتل عام کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔”

حقوق کی تنظیم نے کہا کہ اس کی رپورٹ میں بیان کیا گیا “طرز عمل” اور اسرائیلی حکام کے بیانات نسل کشی کے ارادے کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ تاہم خبر رساں ادارے “ایسو سی ایٹڈ پریس” کے مطابق اس نے قطعی طور پر کسی ایک طرف کوئی موقف نہیں اپنایا۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ارادے کو ثابت کرنا اس نتیجے پر پہنچنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ آیا نسل کشی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

اسرائیل کا موقف

اسرائیل، جسے جرمنی میں نازی ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا، اس طرح کے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس غزہ میں ہونے والی تباہی کی ذمہ دار ہے کیونکہ یہ گروپ سکولوں، ہسپتالوں اور رہائشی علاقوں میں چھپ کر کام کرتا ہے۔

ملک کا کہنا ہے کہ اکتوبر 2023 میں حماس کا اسرائیل پر حملہ جس نے جنگ کو جنم دیا، ہولوکاسٹ کے بعد یہودیوں پر مہلک ترین حملہ ہے اور یہ “نسل کشی” کے مترادف ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس واچ ایک بار پھر اپنے اسرائیل مخالف پرو پیگنڈے کو فروغ دینے کے لیے خون آلود توہین پھیلا رہی ہے۔

اس نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے پوری جنگ کے دوران غزہ میں پانی اور انسانی امداد کے بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے کام کیا ہے۔

وزارت خارجہ نے بیان میں کہا، “اسرائیل بین الاقوامی قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے، غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے گا۔

ہیومن رائٹس واچ کے الزامات سے متفق نہیں، امریکہ

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ہیومن رائٹس واچ کے اس الزام سے اتفاق نہیں کرتا کہ اسرائیل نے غزہ کے پٹی پر پانی کی فراہمی کے انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچا کر “قتل عام کی کارروائیاں” کی ہیں۔

واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدنت پٹیل نے صحافیوں کو بتایا کہ “جہاں تک نسل کشی کے تعین کا سوال ہے تو اس کے لیے قانونی معیار بہت بلند ہے، لہذا اس صورت حال میں ہم اس نتیجے سے اختلاف کرتے ہیں۔”

ساتھ ہی، خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، ترجمان نے کہا کہ یہ کہنا اس بات سے انکار کرنا نہیں ہے کہ غزہ کو اس وقت شدید انسانی بحران درپیش ہے۔

ایک اور رپورٹ میں “ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز” نام کی تنظیم نے اسرائیل پر غزہ میں “نسلی صفائی” کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا۔

عالمی طبی تنظیم نے کہا کہ اس نے میڈیکل اسٹاف پر 41 حملوں کی دستاویز اکٹھی کی ہیں جن میں صحت عامہ کے مراکز پر فضائی حملے اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے قافلوں پر براہ راست گولہ باری شامل ہیں۔

اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان پٹیل نے اس نتیجے سے امریکہ کی دوری کا اظہار کیا اور کہا کہ رپورٹ میں بھی یہ واضح کیا گیا ہے کہ تنظیم کے پاس اس سلسلے میں حملوں کے پیچھے ارادے کا تعین کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔

تاہم، ساتھ ہی اسرائیلی موقف کے بر عکس امریکی ترجمان نے کہا کہ امریکہ ڈاکٹرز ود آوٹ بارڈرز سمیت سول سوسائٹی تنظیموں کے کام کی قدر کرتا ہے اور” اس تنازعے میں شہری نقصان پر ہمیں گہری تشویش ہے۔”

‘فلسطینیوں کو پانی سے محروم کیا گیا’

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے غزہ میں فلسطینیوں کو پانی سے محروم کرنے کے لیے ایک باقاعدہ مہم چلائی۔

انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں پانی کی فراہمی میں کافی حد تک کمی کر دی ہے جو جنگ شروع ہونے سے قبل پانی کی فراہمی یومیہ 83 لیٹر یا 21 گیلن فی شخص تھی۔

خیال رہے کہ عالمی ادارہ برائے صحت “ورلڈ ہیلتھ آرگینائزیشن” کے مطابق لوگوں کو اپنی ضروریات پوری کرنے اور بیماریوں کے انسداد کے لیے 50 سے 100 لٹر یومیہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر غزہ کے چھ میں سے چار گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس کو چلانے والے سولر پینلز کو تباہ کر دیا اور پانی کا ایک اہم ذخیرہ تباہ کر دیا۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے “ڈی سیلینیشن پلانٹس” اور دیگر انفراسٹرکچر چلانے کے لیے درکار بجلی بھی کاٹ دی اور متبادل جنریٹرز کے لیے ایندھن کو محدود کر دیا۔

رپورٹ میں تنظیم نے الزام لگایا کہ جب جنوری میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے حکم جاری کیا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو بنیادی خدمات اور مدد فراہم کرے تو حکام نے اسے نظر انداز کر دیا۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس کی رپورٹ 60 سے زائد فلسطینیوں کے انٹرویوز، یوٹیلیٹی ملازمین، ڈاکٹروں اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور امدادی کارکنوں کے اکاؤنٹس اور سیٹلائٹ تصاویر، تصاویر اور ویڈیو کے تجزیے پر مبنی ہیں۔

ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے پانی کی چار پائپ لائنوں کے ساتھ ساتھ پانی کی پمپنگ اور صاف کرنے کی سہولیات کا کام جاری رکھا ہوا ہے اور بین الاقوامی امدادی گروپوں کو ٹینکروں میں پانی پہنچانے کی اجازت دی ہے۔

گزشتہ سال سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق تقریباً 1,200 لوگ ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

اسرائیل کی 14 ماہ کی جوابی لڑائی میں غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق اب تک 45,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ صحت کے مقامی حکام کی اس تعداد میں شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کیا جاتا۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی تباہ کن حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال میں بے گھر ہو گئی چکی ہے جس سے علاقے کو انسانی بحران کا سامنا ہے۔

(اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات اے پی اور اے ایف پی سے لی گئی ہیں)



Supply hyperlink

Leave a Reply