|
ویب ڈیسک — پاکستان کی ملٹری کورٹس نے نو مئی واقعات کے الزام میں گرفتار مزید 60 افراد کو سزائیں سنا دی ہیں۔ سزا پانے والوں میں عمران خان کے بھانجے حسان نیازی بھی شامل ہیں جنہیں 10 برس قیدِ بامشقت سنائی گئی ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ کے مطابق حسان نیازی کور کمانڈرز ہاؤس لاہور پر حملے میں ملوث تھے۔ جن دیگر افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں، اُن میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لاہور سے ٹکٹ ہولڈر میاں عباد فاروق بھی شامل ہیں جنہیں دو برس قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جن افراد کو سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں کور کمانڈرز ہاؤس لاہور سمیت جی ایچ کیو راولپنڈی، ملتان کینٹ، مردان، بنوں کینٹ، میانوالی ایئر بیس، راہوالی کینٹ، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد سمیت دیگر فومی تنصیبات پر حملہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
فوجی عدالتوں کی جانب سے نو مئی واقعات کے الزام میں گرفتار اب تک 85 افراد کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ اس سے قبل 25 افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں جن پر یورپی یونین، امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔
فوجی عدالتوں نے جمعرات کو جن افراد کو سزائیں سنائی ہیں ان میں فوج اور ایئر فورس کا ایک، ایک سابق افسر بھی شامل ہے۔
بریگیڈیئر (ر) جاوید اکرم کو کور کمانڈرز ہاؤس حملہ کیس میں چھ سال جب کہ گروپ کیپٹن (ر) وقاص احمد محسن کو چکدرہ قلعہ حملہ کیس میں چار برس قیدِ با مشقت کی سزا سنائی ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تمام افراد کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کے خلاف اپیل کا حق ہے۔
ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کا کیس ہے کیا؟
پاکستان میں نو مئی 2023 کے بعد ملک بھر میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے الزام میں سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے بیش تر افراد کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے تھا۔
ان کارکنوں کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی کہ سویلین افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اکتوبر 2023 میں پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ سویلین افراد کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہو سکتا۔
اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا۔ بعدازاں چھ ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ پانچ ایک کی اکثریت سے معطل کر دیا۔
انٹرا کورٹ اپیل پر 29 جنوری 2024 کو ہونے والی سماعت میں جسٹس سردار طارق مسعود نے یہ معاملہ تین ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دیا تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔
بائیس مارچ 2024 کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کی گئی تھیں۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے 20 مارچ کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔
سابق چیف جسٹس کی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔
رواں ماہ سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کی موجودگی میں سویلین کے ملٹری ٹرائل کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں آئینی بینچ کو یہ کیس سننے سے احتراز کا کہا گیا تھا۔ لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔
بعدازاں آئینی بینچ نے 13 دسمبر کو ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی تھی۔