صدر کے خلاف بغاوت کی تحقیقات شروع

صدر کے خلاف بغاوت کی تحقیقات شروع Leave a comment

  • جنوبی کوریا کے صدر کو مارشل لا لگانے کی تجویز دینے والے وزیرِ دفاع مستعفی ہو گئے ہیں۔
  • صدر نے فوج کے ایک سابق جنرل کو ملک کا نیا وزیرِ دفاع نامزد کر دیا ہے۔
  • پولیس نے صدر کے خلاف مارشل لا لگانے پر بغاوت کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
  • اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ دو دن میں پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پر رائے شماری کرائے گی۔
  • مواخذے کی تحریک کی منظوری کے لیے اپوزیشن کو صدر کی جماعت کے ارکان کی حمایت بھی درکار ہوگی۔

ویب ڈیسک _ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے وزیرِ دفاع کا استعفی منظور کر لیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں ہفتے کو صدر کے مواخذے کی تحریک ایوان سے منظور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ پولیس نے بھی پارلیمان کے ارکان کو آگاہ کر دیا ہے کہ صدر کے خلاف بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق صدر کے دفتر سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر یون نے وزیرِ دفاع کِم یونگ ہیئن کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے۔

بیان کے مطابق صدر نے ملک کا نیا وزیرِ دفاع چوے بیونگ ہیوک کو مقرر کیا ہے۔

چوے بیونگ ہیوک اس سے قبل سعودی عرب میں جنوبی کوریا کے سفیر تھے اور وہ فوج کے جنرل بھی رہ چکے ہیں۔

مستعفی ہونے والے وزیرِ دفاع کم یونگ ہیئن نے تین ماہ قبل چھ ستمبر کو ہی عہدہ سنبھالا تھا۔ رپورٹس کے مطابق کم یونگ ہیئن نے ہی منگل کو صدر کو ملک میں مارشل لا لگانے کی تجویز دی تھی۔

مارشل لا کے نفاذ پر اپوزیشن نے صدر کے خلاف بدھ کو مواخذے کی تحریک جمع کرا دی تھی جسے جمعرات کو پارلیمان میں پیش کر دیا گیا ہے۔

ملک کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک ترجمان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کی جماعت منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ ہفتے کی شام سات بجے پارلیمنٹ میں صدر کے مواخذے کی تحریک پر رائے شماری کی جائے۔

دوسری جانب صدر یون سک یول کی بر سرِ اقتدار جماعت پیپل پاور پارٹی بھی حالیہ بحران پر تقسیم کا شکار ہے۔

پیپل پاور پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ صدر کے مواخذے کی تحریک کی مخالفت کرے گی۔ البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ صدر کو جماعت کے کتنے ارکانِ پارلیمان کی حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ صدر یون نے منگل کو ٹی وی خطاب میں ملک میں مارشل لا لگانے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد فوج اور شہریوں کی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے اور ہنگامے کے بعد صدر نے چھ گھنٹے بعد ہی اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

منگل کی شب ہی 300 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ نے صدر کے مارشل لا کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ مارشل کے خلاف پڑنے والے 190 ووٹوں میں حکومتی جماعت کے 18 ارکان کے ووٹ بھی شامل تھے۔

صدر کے مواخذے کی تحریک کی پارلیمنٹ سے منظور کے لیے دو تہائی ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ پارلیمنٹ کی 300 نشستوں میں سے 108 حکمراں جماعت کی ہیں جب کہ ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 192 ہے۔

اس طرح صدر کے مواخذے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے بھی آٹھ ووٹ درکار ہوں گے جس کے بعد صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور ہو سکے گی۔

دوسری جانب ملک کی پولیس نے کہا ہے کہ اس نے صدر کے خلاف مارشل لا کے نفاذ کے بعد بغاوت کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق صدر کے خلاف بغاوت کی تحقیقات کے آغاز کے حوالے سے پولیس کی نیشنل انویسٹی گیشن ہیڈکوارٹرز کے سربراہ وو جونگ سو نے ارکانِ پارلیمان کو آگاہ کیا کہ صدر کے خلاف مقدمے کی تحقیقات کے لیے افسران مقرر کر دیے ہیں۔

دوسری جانب صدر یون مارشل لا لگانے اور پھر اپنا فیصلہ واپس لینے کے بعد سے منظرِ عام سے غائب ہیں۔

صدر یون 2022 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے اور ان کی مدتِ صدارت کے لگ بھگ ڈھائی سال باقی ہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس، رائٹرز اور اے ایف پی سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply