|
مصری رہنماعبدالفتاح السیسی نے منگل کی صدر ٹرمپ کی اس تجویز پر ابتدا میں عوامی طور پر کوئی تفصیلی رد عمل نہیں دیا تھا کہ غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں سے بیشتر کو کسی دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے اور امریکہ علاقے کی تعمیر نو کی ذمہ داری سنبھال لے، انہوں نے اس بارے میں محض اپنے سابق موقف کا اعادہ کیا تھا۔
تاہم ایسو سی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ مصری عہدہ داروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ قاہرہ نے ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی تجویز کی مخالفت کرے گا، اور یہ کہ اسرائیل کے ساتھ لگ بھگ نصف صدی سے قائم امن معاہدہ خطرے میں ہے ۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ پیغام پینٹاگون، محکمہ خارجہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو پہنچا دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے اہلکار نے کہا کہ یہ اسرائیل، برطانیہ، فرانس اور جرمنی سمیت اس کے مغربی یورپی اتحادیوں کو بھی پہنچا دیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی تجویز
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو تجویز پیش کی تھی کہ غزہ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے کہیں باہر”مستقل طور پر” آباد کیا جانا چاہیے۔انہوں نے یہ بات اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے آغاز پر صحافیوں سے بات کرتےہوئےکہی۔
اس موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ لوگوں کوغزہ واپس جانا چاہئے۔”انہوں نے مزید کہا،”آپ اس وقت غزہ میں نہیں رہ سکتے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ایک اور جگہ کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک ایسا مقام ہونا چاہیے جو لوگوں کو خوش کرے۔”
صدر کے بیان سے قبل ان کے اعلیٰ مشیروں نے کہاتھا کہ جنگ زدہ علاقے کی تعمیر نو کے لیے تین سے پانچ سال کی ٹائم لائن، جواکہ عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں بیان کی گئی ہے، قابل عمل نہیں ہے۔
مصر اس منصوبے کو اپنی قومی سلامتی کےلیے خطرہ سمجھتا ہے: ایک مغربی سفارتکار
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق قاہرہ میں ایک مغربی سفارت کار نے بھی اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کی کیوںکہ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی خفیہ بات چیت کو عام نہیں کیا گیا ہے۔ اس نے مصر کی جانب سے پیغام کو متعدد چینلز سے موصول ہونے کی تصدیق بھی کی ہے ۔ سفارت کار نے کہا کہ مصر بہت سنجیدہ ہے اور وہ اس منصوبے کو اپنی قومی سلامتی کےلیے خطرہ سمجھتا ہے ۔
سفارت کار نے کہا کہ مصر نے جنگ کے آغاز میں ، جو حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر دہشت گرد حملے سے شروع ہوئی تھی، بائیڈن انتظامیہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے ایسی ہی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے قبل بائیڈن انتظامیہ کی تجاویز کو نجی طور پر پیش کیا گیا تھا، صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کا اعلان اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی ایک پریس کانفرنس میں کھلے عام کیا تھا۔
بہر حال بعد میں جمعرات کو ایک بیان میں، مصری حکومت نے فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنے کی کوششوں کو بین الاقوامی قانون کی ایسی “کھلی خلاف ورزی” قرار دے کر مسترد کر دیا جس سے جنگ بندی مذاکرات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں تعلقات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ “یہ رویہ دشمنیوں کی واپسی کےکا محرک ہو سکتا ہے اوراس سے پورے خطے اور امن کی بنیاد کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔”
حماس نےجسے امریکہ اور کئی مغربی ملکوں نے دہشت گرد قرار دیا ہے،صدر ٹرمپ کی تجویز کی مذمت کی ہے۔ جمعرات کو اس نےکہا کہ غزہ پر امریکہ کی جانب سے کسی بھی کنٹرول کو ایک قبضہ تصور کیا جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ عسکریت پسند گروپ اس کا جوامزاحمت کے ساتھ دے گا۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
حملے کے جواب میں اسرائیل کی شروع کی گئی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق ساڑھے 47 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے 17 ہزار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔