صدر ٹرمپ کی تمام یرغمالوں کی رہائی کے لیے حماس کو ‘آخری وارننگ’

صدر ٹرمپ کی تمام یرغمالوں کی رہائی کے لیے حماس کو ‘آخری وارننگ’ Leave a comment

  • اسرائیل کو کام ختم کرنے کے لیے ہر چیز بھیج رہے ہیں: صدر ٹرمپ
  • صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں بدھ کو آٹھ یرغمالوں سے ملاقات کی تھی۔
  • وائٹ ہاؤس نے امریکہ اور حماس کے درمیان براہِ راست بات چیت کی تصدیق کی ہے۔
  • لگ بھگ 24 زندہ یرغمالی اب بھی غزہ میں ہیں جب کہ کم از کم 35 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی لاشیں غزہ میں ہی موجود ہیں: اسرائیلی حکام

ویب ڈیسک _ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو “آخری وارننگ” دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں موجود باقی تمام یرغمالوں کو رہا کرے۔

صدر ٹرمپ نے بدھ کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر ایک بیان میں حماس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام یرغمالوں کو فوری رہا کیا جائے اور ان تمام لوگوں کی لاشیں بھی واپس کی جائیں جنہیں آپ نے قتل کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا “صرف کمزور اور ذہنی بیمار لوگ لاشیں رکھتے ہیں اور آپ کمزور اور ذہنی بیمار ہیں!”

اپنے بیان میں صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ اسرائیل کو ہر وہ چیز بھیج رہے ہیں جو اسے کام ختم کرنے کے لیے درکار ہے۔صدر ٹرمپ کے بقول اگر ان کے کہے پر عمل نہیں کیاگیا تو حماس کا کوئی ایک رکن بھی محفوظ نہیں رہے گا۔

امریکی صدر نے یہ بیان حماس کی قید سے آزاد ہونے والے آٹھ افراد سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد جاری کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں یرغمالوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ آج سابقہ یرغمالوں سے ملے جن کی زندگی آپ نے تباہ کردی ہے۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ امریکی حکام اور حماس کے درمیان براہِ راست بات چیت ہو رہی ہے اور یہ بات چیت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہی ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی جانب سے 1997 میں حماس کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم نامزد کیے جانے کے بعد سے امریکہ اور حماس کے درمیان یہ پہلی براہِ راست بات چیت ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ نے بات چیت کی تفصیلات نہیں بتائی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ایلچیوں کو “ہر کسی سے بات چیت” کا اختیار دیا ہے۔

کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ امریکی عوام کے مفاد کے لیے دنیا میں ہر کسی سے بات چیت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

لیوٹ کا کہنا تھا کہ حماس کے عہدے داروں کے ساتھ براہِ راست بات چیت سے متعلق اسرائیل سے مشورہ کیا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا وہاں “امریکی زندگیاں داؤ پر ہیں۔”

دوسری جانب اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ “اسرائیل نے حماس کے ساتھ براہِ راست بات چیت سے متعلق اپنی پوزیشن سے امریکہ کو آگاہ کر دیا ہے۔”

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 24 زندہ یرغمال اب بھی غزہ میں ہیں جب کہ کم از کم 35 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی لاشیں غزہ میں ہی موجود ہیں۔

حکام کے مطابق ان زندہ یرغمالوں میں ایک امریکی شہری ایڈن الیگزینڈر بھی ہیں۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے ہاسٹیج افیئرز کے لیے نامزد خصوصی ایلچی ایڈم بولر نے حماس کے ساتھ براہِ راست بات چیت کی قیادت کی ہے۔

ایڈم صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران ہونے والے ابراہم اکارڈز کی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے۔ ابراہم اکارڈز کا مقصد اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا تھا۔

حماس کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ‘اے پی’ کو بتایا ہے کہ امریکہ سے گزشتہ ماہ بات چیت ہوئی تھی اور یہ بات چیت بنیادی طور پر امریکی یرغمالوں کی رہائی اور حماس کے اقتدار کے بغیر جنگ کے ممکنہ خاتمے پر مبنی تھی۔

عہدے دار کے مطابق اس بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن یہ “قدم بذاتِ خود حوصلہ افزا” ہے اور مزید بات چیت کی توقع ہے۔

امریکہ اور حماس کے درمیان بات چیت کے لیے مصر اور قطر کے ثالثوں نے مدد فراہم کی۔

صدر ٹرمپ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ نیتن یاہو کو اس بات پر قائل کریں کہ اگر حماس جنگ بندی کی نئی شرائط پر راضی نہیں ہوتی تو وہ لڑائی کا دوبارہ آغاز نہ کریں۔

واضح رہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی 19 جنوری سے شروع ہوئی تھی۔ چھ ہفتوں پر مشتمل جنگ بندی کا پہلا مرحلہ یکم مارچ کو مکمل ہوا تھا جس کے دوران اسرائیلی یرغمالوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی تھی۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی اپریل کے وسط تک توسیع کی حمایت کرتا ہے۔ لیکن حماس کا اصرار ہے کہ دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے اور اس سے جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔

غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد ہوا تھا۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک حماس کو دہشت گرد قرار دے چکے ہیں۔

اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں حماس کے زیرِ کنٹرول غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 48ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔





Supply hyperlink

Leave a Reply