شام میں حکومت سازی شروع؛ باغیوں کا تشدد میں ملوث فوجی حکام کے خلاف کارروائی کا عندیہ

شام میں حکومت سازی شروع؛ باغیوں کا تشدد میں ملوث فوجی حکام کے خلاف کارروائی کا عندیہ Leave a comment

  • شام میں حکومت کا خاتمہ کرنے والے گروپ ‘حیات تحریر الشام’ کے سربراہ الجولانی نے بشار الاسد کے دور میں وزیرِاعظم محمد الجلالی سے ملاقات کی ہے۔
  • باغیوں کے اتحاد نے اب تک شام کے مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔
  • بشار الاسد حکومت کے حکام کو جنگی جرائم کی سزا ملے گی: رہنما عسکری گروہ
  • شامی فوج کے سینئر افسران اور سیکیورٹی حکام کے بارے میں جو معلومات دے گا اسے انعام دیا جائے گا: ابو محمد الجولانی

ویب ڈیسک — شام میں بشار الاسد حکومت کا تختہ الٹنے والے باغی گروپ نے حکومت سازی پر کام شروع کر دیا ہے جب کہ باغی رہنما نے تشدد میں ملوث سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق شامی باغی گروپ ‘حیات تحریر الشام’ کے کمانڈر احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی نے بشار الاسد کے دورِ حکومت میں وزیرِ اعظم رہنے والے محمد الجلالی سے ملاقات کی اور انتقالِ اقتدار کے امور پر تبادلۂ خیال کیا ہے۔

فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت سے باخبر ذریعے نے ‘رائٹرز’ کو بتایا ہے کہ جلالی کا کہنا تھا کہ اقتدار کی منتقلی میں کئی روز لگ سکتے ہیں۔

قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ محمد البشیر انتقالِ اقتدار کی ذمے دار اتھارٹی کے سربراہ ہوں گے جو شام کے شمال مغرب میں باغیوں کے گڑھ میں قائم ’سالویشن گورنمنٹ‘ کے سربراہ بھی ہیں۔

باغیوں کے اتحاد نے اب تک شام کے مستقبل کے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ البتہ باغی رہنما خبردار کر چکے ہیں کہ بشارالاسد حکومت کے عہدیداروں کو جنگی جرائم کی سزا ملے گی۔

خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق باغی رہنما ابو محمد الجولانی نے منگل کو جاری ایک بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بشارالاسد حکومت میں شامل وہ عہدیدار جو لوگوں پر تشدد اور جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے تھے انہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جنگی جرائم میں ملوث شامی فوج کے سینئر افسران اور سیکیورٹی عہدیداروں کے بارے میں جو معلومات دے گا اسے انعام دیا جائے گا۔

ابو الجولانی نے کہا کہ نئی آنے والی حکومت ان فوجی افسران کو واپس لائے گی جو ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ‘رائٹرز’ اور ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔



Supply hyperlink

Leave a Reply